قبائلی اضلاع و بلوچستان کے طلبہ کے میڈیکل کالجزمیں داخلوں پر صوبوں اور پی ایم سی کی معذرت

مقررہ تعداد سے زیادہ سیٹ پر  داخلے دے بھی دیئے جائیں تو پی ایم سی نہ تو اسکو ڈاکٹر مانے گی نہ لائسنس جاری کرے گی، صو بے

اسلام آباد (ویب  نیوز) قبائلی اضلاع و بلوچستان کے طلبہ کے میڈیکل کالجزمیں داخلوں کے معاملے پر صوبوں اور پی ایم سی نے بے بسی ظاہر کردی،صوبوں نے شکایت کی ہے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ سیٹ پر  داخلے دے بھی دیئے جائیں تو پی ایم سی نہ تو اسکو ڈاکٹر مانے گی نہ لائسنس جاری کرے گی۔  متذکرہ علاقوں کے طلبہ کو درپیش مسائل پر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی زیرصدارت کمیٹی کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے میڈیکل کالجز میں ایچ ای سی سکالر شپس کے زریعے ملک کے مختلف میڈیکل کالجزمیں داخلوں کے معاملے کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں چاروں صوبوں، ایچ ای سی کے اعلی حکام، صدر پی ایم سی، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر طلحہ محمود اور سینیٹرسردار محمد شفیق ترین نے شرکت کی۔ ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز میں سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبا کی سکالرشپ کا مسئلہ اہم ہے اور تمام متعقلہ اداروں کو اس مسئلے کے حل کیلئے تعاون کرنا چاہئیے۔ فاٹا انضمام کے بعد حالات مختلف ہو گئے ہیں۔ملک کے دیگر صوبوں  کے طالب علموں کی طرح سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبا کو بھی برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبا پاکستان کا مستقبل ہیں اور آج ہم اسی نسل کی مستقبل کی بہتری کیلئے یہاں بیٹھے ہیں اجلاس کے دوران سندھ، پنجاب اور کے پی کے کے ہیلتھ سیکٹریز نے ویڈیو لنک کے زریعے اجلاس میں شرکت کی۔ چاروں صوبوں کے ہیلتھ سیکٹریز نے مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز پیش کیں سیکٹری ہیلتھ کے پی کے نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت صوبے کے میڈیکل کالجز میں ہمارے پاس سیٹس کی گنجائش موجود ہے جو پی ایم ای کے اجازت سے مشروط ہے۔ایک سوال کے جواب میں سیکٹری ہیلتھ پنجاب کا کہنا تھا کہ مقررہ تعداد سے زیادہ سیٹ پر طلب علموں کو اگر داخلہ مل بھی جائے تو بعد میں پی ایم سی اسکو نہ تو ڈاکٹر مانے گی اور نا ہی لائسنس جاری کرے گی۔ اس وقت پنجاب کے کالجز میں ایک سیٹ کی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔ہیلتھ سیکٹری سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ فاٹا کے پی کے میں ضم ہو چکا ہے اور کے پی کے کالجز کو ہی ان طلبا کو داخلہ دینا چاہئے جس پر وزیر مملکت علی محمد خان نے سیکٹری سندھ ہیلتھ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بچے سارے پاکستان کے بچے ہیں ان طلبا کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے اور سب کو انکا خیال رکھنا چاہئے ۔صدر پی ایم سی نے کمیٹی کو بتایا کہا کہ  اضافی نشستوں کیلے کوئی گنجاش نہیں ہے، پی ایم سی اس سلسلے میں بے بس ہے تاہم  صوبے اس سلسلے میں اپنی سفارشات کر سکتے ہیں جن کو زیر غور لا کر حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے  انہوں نے کہا کہ کس طالب علم کو کس کالج بھیجنا ہے اس حوالے سے ایچ ای سی کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ265طلبا کو سکالر شپ پرمیڈیکل کالجز میں داخلہ دینے کیلئے صوبے دو دن کے اندرلسٹ ہمیں ارسال کریں تاکہ اس پر مزید کاروائی کی جا سکے بیرون ملک سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبا کو لائسنس کے حصول میں مشکلات کے حوالے سے معاملہ بھی کمیٹی میں زیر بحث آیا اور مشاورت کے بعد ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے مسئلے کو ہیلتھ کمیٹی بھیج دیا۔جبکہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبا کا میڈیکل کالج میں سکالر شپ کے مسئلے پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے ہدایات جاری کیں کہ265 سیٹوں کیلئے پی ایم سی صوبوں کے ساتھ رابطے میں رہے اور تمام صوبے میڈیکل کالجز میں سیٹوں کی گنجائش کی نشاندہی کرکے ایک لسٹ دو دن میں پی ایم سی کو ارسال کرے۔مسئلے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کیلئے اگلے ہفتے دوبارہ میٹنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔