بھارت صحافیوں کے لیے خطرناک تر ہوتا جا رہا ہے ،رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز
بی جے پی پالیسوں پر تنقید کرنے والے صحافی ملک دشمن، غدار اور دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں
صحافیوں کے خلاف پولیس، سیاسی کارکنوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے

پیرس(ویب نیوز )صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری عالمی ادارے ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ نے سال 2021 کے لیے صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی سے متعلق اپنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق بھارت میں میڈیا کی آزادی کی صورتِ حال بدستور تشویش ناک ہے اور دنیا کے 200 ملکوں کی فہرست میںبھارت کا نمبر پچھلے سال کی طرح اس سال بھی 124 واں ہے۔کے پی آئی کے مطابق  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکومت نوازمیڈیا  حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی  کی پروپیگنڈ مہم کا حصہ بن گیا ہے ۔ جو صحافی حکومت پر تنقید کر تے ہیں انہیں ملک دشمن، غدار  اور دہشت گردوں کا  حامی قرار دیا جاتا ہے ۔ بعض مواقعوں میں  تنقید کرنے والے صحافیوںکے قتل کا مطالبہ بھی  سامنے آیا ہے خاص طور پر اگر وہ خواتین ہوں۔  بی جے پی کے کارکنوں   کی طرف سے ان پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ ان صحافیوں کا مقدمات کا بھی سامنا ہے ۔ ، آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر میں ، صحافی  بھارتی  ریگولیشن کا سامنا کر رہے ہیں۔  بھارتی مدیروں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈنے 17 اپریل 2021 کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں  جموں وکشمیر میں پولیس سے کہا گیا تھا کہ کشمیری صحافیوں کو  فورسز کی تلاشی  مہم  آپریشنز کی کوریج سے نہ روکا جائے ۔ یہ اقدام غیر جمہوری ہے ۔ جموں وکشمیر پولیس نے صحافیوں کوفورسز کی تلاشی  مہم  آپریشنز کی کوریج  نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔آر ایس ایف کی رپورٹ میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہندوستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ نادیہ وٹوم Nadia Whittome,کے بیان کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ  مودی سرکار کے زیر  اثر میڈیا نے احتجاج کرنے والے کسانوں کو سکھ علیحدگی پسند  دیا ہے۔ وائٹوم نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا  تھا کہ  پنجابی کسانوں کی پوتی کی حیثیت سے انہیں "مودی کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے لاکھوں لوگوں” کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پر فخر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین، بھارت، ایران، سعودی عرب، ویتنام اور شمالی کوریا جیسے ملکوں میں صحافتی آزادیوں کی صورتِ حال بیحد خراب ہے جب کہ ناروے، فن لینڈ اور سوئیڈن بہترین درجہ بندی کے ساتھ بالترتیب پہلے تین نمبروں پر ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں بھی حساس معاملات پر رپورٹنگ صحافیوں کے لیے آسان نہیں رہی۔بھارت کا شمار بھی رپورٹر ود آوٹ بارڈر کے انڈیکس میں ایسے ممالک میں کیا گیا ہے جو صحافیوں کے لیے خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ 2020 کے دوران بھارت میں چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی کے سال 2019 میں انتخاب کے بعد صحافیوں کے خلاف پولیس، سیاسی کارکنوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب وزیراعظم کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا دباو بھی صحافیوں پر بڑھا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست نظریے کا پرچار کریں۔ایشیا بحرالکاہل خطے کو جس میں 34 ملک شامل ہیں، صحافتی آزادیوں کے حوالے سے بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں، بلاگرز کے لیے یہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ چین اور ویت نام کو صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔افغانستان، پاکستان، فلپائن اور بنگلہ دیش بھی اسی خطے کا حصہ ہیں۔جنوبی امریکہ کے ملکوں میکسیکو، ہندوراس، کولمبیا ،برازیل اور وینزویلا میں کرپشن، سائبر نگرانی اور حکومی تشدد نے آزاد صحافت کی راہ میں سخت مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں ۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ صحافی ریاست کی طرف سے نگرانی کے عمل یا جاسوسی جیسے معاملات پر کھل کر کوریج نہیں کر سکتے۔ امریکہ کی درجہ بندی تاہم ایک درجیبہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ سال دنیا کے بہتر صحافتی آزادی والے ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نمبر45 واں تھا جو اس سال 44 واں ہو گیا ہے۔صحافتی آزادیوں کے اس عالمی انڈیکس میں بھارت کا نمبر 142 واں ہے۔ناروے، فن لینڈ اور سویڈن بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر کے ساتھ فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔فہرست میں چین 177ویں، ایران 174 ویں اور سعودی عرب 170 ویں نمبر پر ہیں۔ اریٹریا کا نمبر آخری ہے جو 180 ویں نمبر پر ہے اور شمالی کوریا نیچے سے 179 ویں نمبر کے ساتھ بدترین صورتحال کے حامل ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔
#/S