اسلام آباد (ویب ڈیسک)
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں عالمی اور علاائی سطح پر تعاون کار کا فروغ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر ترقی پزیر ممالک کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ آلودگی سے پاک ترقی کے عمل کو تقویت دے سکیں۔ماہرین نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام ’زمین کا عالمی دن۔ماحولیاتی بحران اور گلاسکو کی جانب سفر‘ کے زیر عنوان ویبینار کے دوران اپنی گفتگو میں کیا۔
ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر الکا کلکر نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو کم کاربن خارج کرنے والی ٹینکنالوجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے  انہیں قابل تجدید توانائی کو ترقی دینی ہو گی۔انہوں نے کہا کہماحولیاتی تبدیلوں کے مقابلے کے لیے منصوبہ بندی مقامی سطح پر ہونی چاہئے اور اس میں مقامی سٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔اسی طرح ہمیں اس مد میں بجٹ کو مقامی سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیشنل سینٹر فار کلائمیٹ چینج اینڈ ڈویلپمنٹ  ڈھاکہ کے ڈاکٹر لیم الحق نے کہا کہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک کو مل کر اپنے کم کاربن کے اخراج سے متعلق  اپنے مشترکہ ایجنڈے پر کام کرنا چاہئے اور اس ضمن میں تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس موقع پر کہا کہ ہم اس سال بھی زمیں کا عالمی دن وبا کے دوران منا رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں مستقبل کے لیے حالت تیا ری کس حد تک بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ک ہا کہ ترقی پزیر ممالک کو آلودگی سے پاک ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں ترقی پزیر ممالک کی مدد کرنی چاہئے۔
ماحولیاتی سائنس کے ماہر ڈاکٹر فہد سعید نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں موجود علم کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہئے تا کہ لوگ مقامی سطح پر اس سے مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی اثرات میں کمی اور ترقی کے عمل کے دوران ایک توازن لانے پر توجہ دی جائے۔ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر عمران خالد نے موضوع کے مختلف پہلوووں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ماحولیاتی تبدیلیوں کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جانا چاہئے۔