صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی وی کے چھ ملازمین کی 2 سال کیلئے ترقی روکنے کی ہدایت کر دی

یہ ہدایت خاتون کیمرہ مین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے ، غیر محفوظ اور جارحانہ ماحول پیدا کرنے پر کی گئی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے  خاتون کیمرہ مین کی سروس سے برطرفی کو بھی کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد(ویب  نیوز)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی وی کے چھ ملازمین کی 2 سال کیلئے ترقی روکنے کی ہدایت کر دی،یہ ہدایت خاتون کیمرہ مین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے ، غیر محفوظ اور جارحانہ ماحول پیدا کرنے پر کی گئی،صدر مملکت نے خاتون کیمرہ مین کی سروس سے برطرفی کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔اتوار کو ایوان صدر پریا ونگ سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے کہا کہ خاتون کے خلاف ضابطے کی پیروی کیے بغیر، غیر ذمہ دارانہ طریقے سے تادیبی کارروائی شروع کی گئی، خاتون کیمرہ مین کے خلاف بدتمیزی اور توہین آمیز کارروائیاں کی گئیں۔صدر مملکت نے کہا کہ کام کی جگہ پر ہراساں کرنا ایک عالمی رجحان ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پایا جاتا ہے،ہراسانی کا عمل مذہب، ثقافت، نسل، ذات، طبقے اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہے،تعلیم اور روزگار تک بہتر رسائی سے لاکھوں پاکستانی خواتین کام کر رہی ہیں،بہت سے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر کام کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں کام کی جگہ پر ہراسانی کے خاتمے کیلئے کوشش کرنی چاہیے،ہراسانی پاکستان کے آئین میں موجود بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،آرٹیکل 25 جنس کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیاز سے منع کرتا ہے،آئین تمام معاملات میں قانون کے یکساں تحفظ اور مساوات کی ضمانت دیتا ہے،آرٹیکل 34 ریاست کو قومی زندگی کے تمام امور میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے ، صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 37 (c) میں خواتین کو ملازمت اور کام کی شرائط کے معاملات میں خصوصی حیثیت دی گئی ہے،ہراسانی سے پاک ماحول اعلی پیداواری صلاحیت ، بہتر کارکردگی کا باعث بنتا ہے،ہراسانی کام کرنے والی خواتین کو درپیش سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔صدر مملکت نے پی ٹی وی، عبدالرشید، ضیا الرحمان، مقبول شاہ، محمد منور، اور کنول مسعود کی جانب سے دائر اپیل مسترد کردی،وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت نے خاتون کو چارج شیٹ کرنے، معطلی کے احکامات، تبادلے کرنے پر ترقی روکنے اور 1 لاکھ جرمانے کی سزا عائد کی تھی ، ضیا الرحمان، عبدالرشید، مقبول شاہ، کنول مسعود، سعید اطہر اور محمد منور پر سزا عائد کی گئی تھی،صدر مملکت نے ملوث ملازمین پر محتسب کی جانب سے عائد کردہ جرمانے کی سزا مسترد کر دی۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے شکایت کی کہ پی ٹی وی میں ملازمین نے اس پر حملہ کیا،جواب دہندگان نے حمایت کی، کیس میں ملزمان پر جنسی ہراسانی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے ۔البتہ محتسب نے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے مترادف کارروائیاں کرنے پر سزا عائد کرنے کا فیصلہ دیا ،جنسی ہرسانی ثابت نہ ہونے پر صدر ِ مملکت نے 05.01.2018 کو محتسب کے فیصلے کو مسترد کیا تھا،بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے خاتون کیمرہ مین اور اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر کردہ سول ریویو پٹیشنز کو منظور کر لیا۔فیصلے میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلوں کو مسترد کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے معاملہ صدر مملکت کو ازسرِ نو فیصلہ کرنے کیلئے واپس بھیجا تھا۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لفظ ہراسانی  کی تشریح کی تھی،ہراسانی کے دو اجزا ہوتے ہیں، جنسی ہراسانی اور کام کیلئے غیرمحفوظ ، مخالف یا جارحانہ ماحول پیدا کرنا،کیس کے حقائق جنسی مطالبات کی نوعیت کے دائرے میں نہیں آتے بلکہ مخالفانہ یا جارحانہ کام کے ماحول کے دائرے میں آتے ہیں،بعد ازاں صدر مملکت نے جون اور جولائی 2023 میں کیس کی سماعتیں کی۔صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں معاملے کا نئے سرے سے فیصلہ کیا۔صدر مملکت نے کہا کہ ہراسانی  کی اصطلاح کو صرف جنسی نہیں بلکہ غیر محفوظ ، مخالف یا جارحانہ ماحول پیدا کرنے کے پہلوں کے ساتھ جانچنے کی ضرورت ہے،اگر کوئی آجر خواتین کیلئے غیر محفوظ ماحول پیدا کرتا ہے تو یہ ہراسانی کی تعریف میں آتا ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ ہراسانی کی اصطلاح کو کام کیلئے غیر محفوظ ، مخالفانہ یا جارحانہ ماحول کے تناظر میں الگ سے پڑھنا چاہیے نہ کہ صرف جنسی مطالبات کے تناظر میں۔صدر مملکت نے محتسب کے فیصلے کو برقرار رکھا اور فیصلے کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں،پی ٹی وی ہراسانی کے متعلق پروٹوکول بہتر بنائے،پی ٹی وی اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔صدر مملکت نے ہدایت کی کہ انسدادِ ہراسیت پروٹوکول پر نظرثانی اور ان پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کی جائے،پی ٹی وی حکم کو تیس دنوں کے اندر لاگو کرے ، پروٹوکول پر رپورٹ محتسب کو جمع کرائے۔