معاشی تر قی کو مزید بہتر کرنے کیلئے کاروبار پرتمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ سردار یاسر الیاس خان
آئندہ بجٹ میں ایس ایم ایز کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے
اسلام آباد (ویب نیوز  ) گذشتہ سال منفی 0.47 فیصد جی ڈی پی گروتھ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں تقریبا 4فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کر نے کا حکومتی دعویٰ معیشت کیلئے ایک اہم کارنامہ معلوم ہوتا ہے تاہم معاشی ترقی کی شرح کو مزید بہتر کرنے کیلئے حکومت کاروبار پر عائد تمام پابندیاں ختم کرے تا کہ کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال ہونے سے ہماری معیشت مشکلات سے نکل کر تیزی سے استحکام کی طرف بڑھے۔ ان خیالات کا اظہار اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کے صدر سردار یاسر الیاس خان نے اپنے ایک بیاں میں کیا۔انہوں نے کہا کہ سیاحت اور ہیلتھ کیئر سمیت متعدد شعبوں کی گڈز، سروسز، مشینری اور سامان کی درآمد پر حکومت نے بھاری ڈیوٹیز عائد کر رکھی ہیں جو سرمایہ کاری اور نئے منصوبوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لہذا انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں صنعتی شعبے کی برآمدات پر عائد بھاری ڈیوٹیز ختم کرے جس سے ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری کو بہتر فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قرضوں کی لاگت اب بھی بہت زیادہ ہے جو سرمایہ کاری اور کاروبار کے فروغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں پالیسی شرح سود کو کم کر کے 3 فیصد تک لائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی کمی کا اعلان کرے جس سے کاروبار کی لاگت نیچے آئے گی اور صنعت وتجارت کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔
سردار یاسر الیاس خان نے کہا کہ -54 1953 میں پاکستان نے اپنی تاریخ کی سب سے بہتر شرح نمو یعنی 10فیصد سے زائد جی ڈی پی گروتھ حاصل کی لیکن اس کے بعد ہماری معیشت ابھی تک اس طرح کی کارکردگی کو دہرانے میں ناکام رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈبل ڈیجٹ گروتھ حاصل کرنے کی عمدہ صلاحیت ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بزنس لیڈرز کی مشاورت سے سازگار اور طویل المدت اقتصادی پالیسیاں تشکیل دے جس سے معیشت پائیدار ترقی حاصل کرنے کے قابل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ آنے والا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر خزانہ ملک کے تمام اہم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور سے مشاورت کر کے ایسا بجٹ تشکیل دیں جو ملک کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہو۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری اور کاروبار سے وابستہ سرکاری محکموں بشمول فنانس، تجارت، ایف بی آر وغیرہ کے مابین قریبی تعاون اور مستقل رابطہ قائم کر کے ہی پاکستان کی پائیدار معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے لہذا حکومت اس طرف توجہ دے۔
آئی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ ایس ایم ایز ہماری معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ وہ ملک کے سالانہ جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ڈالتی ہیں برآمدات کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تاہم کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور پابندیوں نے ایس ایم ایز کے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے کاروباری ادارے مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمیڈا کی جانب سے ایشین ڈویلپمنٹ بینک انسٹی ٹیوٹ اور ایشین پروڈکٹیویٹی آرگنائزیشن کے اشتراک سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق 2020 کی پہلی ششماہی میں 81 فیصد سے زائد ایس ایم ایز کا سیلز ریونیو کم ہوا، 66 فیصد سے زائد کو مستقل ملازمین کی تعداد کم کرنا پڑی، 33فیصد سے زائد کی پیداوار کم ہوئی، 82 فیصد سے زائد کو کیش فلو کی قلت کا سامنا رہا جبکہ 2020میں 76 فیصد سے زائد ایس ایم ایز کو اپنی آمدن میں کمی کا امکان رہا۔ انہوں نے کہا کہ سمیڈا کے ایک اور سروے کے مطابق 59فیصد ایس ایم ایز کیلئے آپریٹنگ لاگت میں اضافہ جبکہ 57 فیصد کیلئے خام مال کی لاگت میں اضافہ ہوا جس کی شرح 10سے 30فیصد رہی۔ ان اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایس ایم ایز کو پاکستان میں کاروبار کرنے میں کتنے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لہذا انہوں نے زور دیا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں ایس ایم ایز کے لئے خصوصی امدادی پیکج کا اعلان کرے تاکہ یہ کاروباری ادارے اپنے نقصانات کی کچھ تلافی کر سکیں اور ملک کی معاشی ترقی میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکیں۔