شہباز شریف کو جس انداز میں ریلیف دیا گیا وہ کسی کیلئے مثال نہیں بن سکتا،عدالت

فوجداری مقدمات میں ملزم کی نقل و حرکت کو کیسے محدود کیا جا سکتا، لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کا موقف سنا گیا،جسٹس سجاد علی شاہ

فیصلہ جلدی آجائے تو مصیبت تاخیر ہو جائے توبھی مصیبت، ریمارکس

یہ رجحان بن گیا ملزم کو پکڑ لیتے ہیں، نیب ریفرنس میں 140 گواہان کے نام شامل کر دیتا ہے، جسٹس اعجاز الا حسن

 اگر پانچ پانچ سال ٹرائل چلے گا تو یہ احتساب کے عمل کو متاثر کرنے کے مترادف ہوگا، ریمارکس

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

حکومت اور مسلم لیگ (ن) اورقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے صدرشہباز شریف کے درمیان معاملات طے پا گئے اور حکومت نے شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے لی،شہبازشریف کے وکیل نے سپریم کورٹ کو توہین عدالت کی پیروی نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیا۔بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل ڈویژن بینچ میں مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ہائیکورٹ کے نمائندے اور شہباز شریف کی جانب سے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے، رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے عدالتی کارروائی کا ریکارڈ پیش کردیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق ہائیکورٹ میں درخواست داخل ہوئی، اس پر اعتراض لگا، ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل آفس کو جواب جمع کرانے کا وقت نہیں دیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا کیس سسٹم کے تحت مقرر ہوا یا خاص طور پر ؟جس پر رجسٹرار ہائی کورٹ نے موقف اپنایا کہ درخواست اعتراض کیلئے مقرر ہوئی تھی، فیصلہ ہوا کہ اعتراض پر فیصلہ درخواست کے ساتھ ہی ہوگا ، جمعہ کو 9:30 پر اعتراض لگا اور 11:30 پر کیس کی سماعت ہوئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکومتی وکیل کو ہدایات لینے کیلئے صرف 30 منٹ دئیے گئے، ایک سال میں کتنے مقدمات کی جمعہ کو 12 بجے سماعت ہوئی؟ بتایا جائے کتنے مقدمات میں یکطرفہ ریلیف دیا گیا؟ ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ شہباز شریف کا نام کس لسٹ میں ہے، کیا اس طرح کا عمومی حکم جاری ہو سکتا ہے جیسا لاہور ہائی کورٹ نے کیا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری مقدمات میں ملزم کی نقل و حرکت کو کیسے محدود کیا جا سکتا، لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کا موقف سنا گیا، فیصلہ جلدی آجائے تو مصیبت تاخیر ہو جائے توبھی مصیبت۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ عدالت وفاق کی اپیل کو دو ٹرمز پر نمٹا دے، لاہور ہائیکورٹ کا بلیک لسٹ سے نام نکالنے کا فیصلہ مثال نہ بنے۔ جسٹس اعجاز الا حسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ رجحان بن گیا ہے ملزم کو پکڑ لیتے ہیں، نیب ریفرنس میں 140 گواہان کے نام شامل کر دیتا ہے، اگر پانچ پانچ سال ٹرائل چلے گا تو یہ احتساب کے عمل کو متاثر کرنے کے مترادف ہوگا۔حکومت اور شہباز شریف کے درمیان کھلی عدالت میں معاملات طے پا گئے اور حکومت نے شہباز شریف کیخلاف اپیل واپس لے لی، دوسری جانب شہباز شریف نے بھی عدالت کو توہینِ عدالت درخواست کی پیروی نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔عدالت کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو جس انداز میں ریلیف دیا گیا وہ کسی کیلئے مثال نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف کا ٹرائل کرنے والے جج کا ہائی کورٹ نے تبادلہ کردیا۔ وکیل شہباز شریف نے کہا کہ احتساب عدالت کا نیا جج لگانے میں کیا مسئلہ ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیا جج تعینات کرنے میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں، شاید شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ان کا کیس جلدی نمٹ سکے، جج کو جس انداز میں وقت سے پہلے ہٹایا گیا اس پر حکومت کو اعتراض ہے۔ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ نئے ججز کی تعیناتی کیلئے نام بھجوا دئیے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو نئے ناموں پر اعتراض ہے؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نئے ناموں پر اعتراض کے حوالے سے علم نہیں۔