لکشدیپ  میں مسلمانوں کی اکثریت، تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا

نئی دہلی (ویب ڈیسک)

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست جموں وکشمیر کے بعد ریاست کیرالہ کے بغل میں دلکش جزیرے لکشدیپ کی مسلم اکثریتی شناخت ختم کرنے کے لیے  چڑھائی شروع کر دی ہے ۔  لکشدیپ کی 99 فیصد آبادی مسلمان ہے ۔بھارتی حکومت نے65 ہزار مسلمانوں  کی آبادی والے لکشدیپ جزیرے  میں مسلمانوں کی اکثریت، تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے  ، نئے قوانین کے زریعے بھارتی ہندووں کو بسایا جائے گا۔ برطانوی اخبار میں کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور   نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ  بھارتی حکومت نے گجرات  کے انتہا پسند ہندوسیاست دان پرفل کھوڑا پٹیل کو لکشدیپ کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر  رکھا ہے ۔پٹیل نے جزیرے میں کئی نئے قوانین کا اطلاق کیا جن میں نئی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ شراب کی فروخت کی آزادی اور گاکشی پر پابندی شامل ہے۔لکشدیپ کے بزرگ شہری رحمانی نور نے بعض رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئی ترقیاتی اتھارٹی کے پیچھے یہاں کے مقامی باشندوں کے حقوق جائیداد پر شب خون مارنا ہے اور انہیں اپنی زمینوں سے بے دخل کر کے ہندووں کو بسانا ہے، خاص طور پر انہیں، جو مودی کے شہریت کے ترامیمی قانون کے تحت دوسرے ممالک سے بھارت واپس آ کر بسنا چاہتے ہیں۔لکشدیپ کے امور کے ماہر ڈاکٹر رٹولا ٹھاکر کہتے ہیں کہ۔ اگر مان بھی لیں کہ سرکار مالدیپ کی طرز پر اس علاقے کو سیاحت کے نقشے پر لانا چاہتی ہے تو کیا مالدیپ نے بھی مقامی لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کر لی ہیں؟ بی جے پی کے پاس اگر یہی ترقی کا معیار ہے تو بھارت کے 22 کروڑ مسلمانوں کو ترجیحی طور پر اپنے بچا کا راستہ تلاش کرنا پڑے گاحکومت کا موقف ہے کہ وہ اس علاقے کو سیاحت کا مرکز بنانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے شراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں ہوگی حالانکہ پٹیل نے گجرات میں جہاں وہ مودی کے دور حکومت اور ان کے بعد کی حکومتوں میں کئی بار وزیر رہے ہیں، شراب نوشی پر پابندی اٹھانے کی کبھی بات تک نہیں کی۔مقامی آبادی نے سوال اٹھایا ہے کہ شراب پینے کی آزادی صرف مسلمان علاقوں تک محدود کیوں جبکہ گجرات، بہار اور دوسری بڑی ریاستوں میں اس پر پابندی عائد ہے۔ اصل مقصد مسلمانوں کو نہ صرف ذہنی طور پر ہراساں کرنا ہے بلکہ انہیں اپنے مذہب کی آزادی سے محروم کرنے کا ایک اوچھا ہتھکنڈا بھی ہے۔اس علاقے کے مسلمان اعلی تعلیم یافتہ ہیں، ان کی شرح خواندگی 95 فیصد سے زائد ہے اور جرائم کی شرح صفر کے مانند رہی ہے۔ اس علاقے کی افادیت اس وقت سے مزید بڑھ گئی جب سے بحیرہ بنگال میں امریکی بحری بیڑا ڈیسٹرایر لنگر انداز ہوا ہے اور امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان چارطرفہ سلامتی مکالمہ (جسے کواڈ بھی کہا جاتا ہے) کے تحت سٹریٹجک ڈائیلاگ کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔بی جے پی کی حکومت نے جہاں پورے بھارت میں انسداد دہشت گردی سے متعلق نیا قانون یو اے پی اے نافذ کر کے شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف، کسانوں کی احتجاج کے خلاف یا جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کے حامیوں کے خلاف استعمال کیا ہے بالکل اسی طرح کا ایک قانون لکشدیپ میں نافذ کر کے مقامی آبادی کو حکومت کی نئی حکمت عملی پر بات کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ بیشتر افراد کو نئے قوانین کے خلاف بولنے پر جیل بھیج دیا گیا ہے جس کا کیرالہ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیا ہے۔ان قوانین کے خلاف کیرالہ کے ساحلی علاقوں اور لکشدیپ میں احتجاجی لہر کے ساتھ ساتھ کافی غصہ پایا جا رہا ہے۔ کیرالہ کی مقامی حکومت پر زور بڑھتا جا رہا ہے کہ لکشدیپ کو ہڑپ کرنے کی بی جے پی کی پالیسیوں کو روکنے کے لیے سامنے آ جائے تاکہ اس پرامن علاقے کو دوسرا جموں و کشمیر بننے سے روکا جاسکے جہاں سو سے زائد قوانین لاگو کر کے ایک کروڑ سے زائد افراد کو بے گھر، بے اختیار اور بیروز گار بنانے کا عمل جاری و ساری ہے۔