سرینگر (ویب ڈیسک)
نریندر مودی حکومت جموں و کشمیر کی سیاست پر مسلم اکثریت کی اجارہ داری ختم کرنے اورانتظامی معاملات میں سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے ان علاقے میں بعض اہم انتظامی تبدیلیاں لانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جہاں کشمیری مسلمان زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس مقصد کے تحت جموں و کشمیر اسمبلی میں ہندو اکثریتی جموں خطے کی نشستوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے ۔اس سلسلے میں طریق کار وضع کیا جا رہا ہے اور اس سال کے اواخر میں باضابطہ اعلان متوقع ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں کئی ہزار مزید فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے طرح طرح کی قیاس آرائیوں اور اندیشوں کا بازار گرم ہے۔
بھارتی حکومت ہزاروں مزید نیم فوجی دستوں کو وادی کشمیر بھیج چکی ہے جو بیشتر شمالی کشمیر میں تعینات کیے گئے ہیں۔ فوج کی اس تیز نقل و حرکت سے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت عیاں ہے اور مقامی رہنما کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ کشمیر میں ایک بار پھر سے کچھ بڑا ہونے والا ہے۔جموں اور جنوبی کشمیر کو ملانے والی مغل شاہراہ کو بغیر کسی وجہ کے بند کردیا گیا ہے۔جس کا مقصد جنوبی کشمیر اور جموں کے باہمی مواصلاتی رابطے کو منقطع کرنا ہے۔جبکہ لکھن پور سے ہزاروں کی تعداد میں غیر کشمیریوں کو کشمیر میں لایا گیا ہے۔ ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے کہ بھارتی نیم فوجی دستوں کی مختلف کمپنیوں نے جنوبی کشمیر کے علاقوں شوپیاں اور پلوامہ میں ان غیر کشمیری لوگوں میں راشن بھی تقسیم کیا۔یہ سہولیات اس وقت فراہم کی جاتی رہیں جب جنوبی کشمیر میں بھارتی افواج کی طرف جار ی آپریشنز میں انتہائی سخت پابندیوں کی وجہ سے مقامی لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
کشمیر کی سیاسی جماعت اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری ، پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون ،ڈی جی پولیس اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہانے بھی دہلی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کی ہیں۔جبکہ DDC ممبرز کا ہنگامی اجلاس سرینگر سیکریٹریٹ سرینگر میں بلایا گیا تھا ۔
ساوتھ ایشین وائر کو کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں BSF اورانڈین تبت بارڈر پولیس (ITBP) کے نئے کیمپ قائم کئے جارہے ہیں جن میں رام ہال، کرالپورہ، کیرن، ٹیکی پورہ، کرناہ، راجواڑ، ماوراور کپواڑہ کے علاقے شامل ہیں۔کپواڑہ میں مختلف مقامات پر ملٹری کانوائے میں بڑی گاڑیوں کے علاوہ بو فورس گنز (توپیں)راجواڑ کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔
کشمیر میں حکام نے فوجی نقل و حرکت کے حوالے سے بعض بیانات کے ذریعے لوگوں کی تشویش یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش ہے کہ یہ فوجی اسمبلی انتخابات کروانے کے بعد واپس کشمیر آئے ہیں جو پہلے یہیں تعینات تھے۔ کشمیر میں انسپکٹر جنرل آف پولیس وجئے کمار کا کہنا ہے، واپسی کے بعد ان فوجیوں کو دوبارہ ان کی دیوٹی میں شامل کیا جا رہا ہے، یہ کوئی نئی تعیناتی نہیں ہے۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ فوج کی اتنی زیادہ نقل و حرکت سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کشمیر میں پھر سے کچھ بڑا ہونے والا ہے اور ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے شاید پھر سے کشمیری رہنماوں کو حراست میں لیا جائے گا۔مقامی افراد نے انسپکٹر جنرل پولیس کے بیان کو یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ اگریہ پہلے سے ہی تعینات فوج واپس آئی ہے تو نئے کیمپس کیوں بنائے جارہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور ریاستی وزیر اعلی کے سابق مشیر تنویر صادق اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں، کہ بہت تیزی سے طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، تو کیا ہمیں دوبارہ ایم ایل ہاسٹل جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟
مقامی صحافیوں کے مطابق کشمیر میں گزشتہ دو روز سے 5اگست 2019سے چند دن قبل کی کیفیت ہے اور لوگوں میں فوجی نقل و حرکت سے زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایک صحافی ظہور حسین نے جرمنی کے نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ میں اضطرابی کیفیت ہے۔ خاص طور پر وادی کشمیر میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دفعہ 370 کے بعد ان کے پاس کھونے کو بچا بھی کیا ہے، اس لیے پہلے جیسا خوف نہیں ہے۔
کشمیر میں ایک افواہ یہ ہے کہ مودی حکومت ایک بار پھر سے کشمیر کو تقسیم کرنے جا رہی ہے اور اس کے تحت جموں خطے کو پھر سے ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا جبکہ وادی کشمیر مرکز کے زیر انتظام برقرار رہے گا۔
دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کو جموں میں ضم کر کے ایک نئی ریاست جموں قائم کی جائے گی اور شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ایک افواہ یہ ہے کہ مودی حکومت کشمیری پنڈتوں کے لیے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کا اعلان کرنے والی ہے تاکہ وہاں کشمیری پنڈتوں کو پھر سے بسایا جا سکے۔ کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم ‘پنون کشمیر” کا مطالبہ رہا ہے کہ وہ کشمیر واپس آنا چاہتے ہیں تاہم انہیں الگ سے بسایا جائے اور کشمیر کو دو علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ہندووںکی شدت پسند جماعت کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانے والی تقسیم کے تحت ایک جموں کشمیر اور دوسرا لداخ کا علاقہ ہے۔
بھارت نے ایسا کرنے کے لیے کشمیر کے سینکڑوں رہنماوں و کارکنان کو گرفتار کیا تھا جس میں سے متعدد اب بھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری مولوی بشیر احمد عرفانی نے ایک بیان میں اضافی بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کے حل کے لئے پرامن سیاسی تحریک میں مصروف ہیں۔