افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے یہ دو دہائیوں سے جاری لڑائی جھگڑے اور گہری تقسیم کا نتیجہ ہے

وزیر اعظم کا  وسطی اور جنوبی ایشیاء رابطہ ممالک کانفرنس سے خطاب

تاشقند (ویب ڈیسک)

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ  افغانستان کی صورتحال سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگانا انتہائی غیر مناسب ہے،بدقسمتی سے امریکہ افغان مسئلہ کا فوجی حل تلاش کررہا تھا جو کہ ممکن نہ تھا، جب افغانستان میں نیٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی موجود تھے اور سب سے بڑی ملٹری مشین موجود تھی و ہ وقت تھا کہ جب طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا جاتا، کیوں طالبان کمپرومائز کریں گے جب  افغانستان چھوڑنے کی تاریخ دے دی گئی تھی اور صرف چند ہزار امریکی فوجی ہی رہ گئے تھے، کیوں طالبان ہماری بات سنیں گے جب انہیں فتح نظر آرہی تھی۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے اور دونوں ملک مسئلہ کشمیر کو حل کر لیں تو پورا خطہ کھل سکتا ہے اور تبدیل ہو سکتا ہے۔ان خیالات کااظہاور وزیر اعظم عمران خان نے وسطی اور جنوبی ایشیاء رابطہ ممالک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر ازبکستان کے صدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ گوادر پورٹ پر معاشی سرگرمیاں 2019میں شروع ہوئیں۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک ،بی آرآئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ امید کرتے ہیں کہ سی پیک علاقائی روابط میں بھی اہم کردار اداکرے گا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان وسطیٰ ایشیاء اورجنوبی ایشیاء کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہماری ترجیح افغانستان میں استحکام ہے۔ افغانستان میں بدامنی کا اثر پاکستان پر بھی ہوتا ہے۔ اسلحہ کے زور پر افغان مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ خطہ کے ممالک کے در میان روابط کے قیام کے لئے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے، افغانستان میں قیام امن ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و مفاہمت ، تعمیر نو اور معاشی ترقی کے حوالے سے تمام اقدامات کی حمایت کرتا ہے ،پاکستان ، افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اور خطہ اور دنیا کے شراکت داروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ افغان مسئلہ کے بات چیت کے ذریعے حل کے لئے  مل کر کام کریں،افغان صدر اشرف غنی نے کانفرنس میں پاکستان کے افغان مسئلہ میں منفی کردار کے حوالے سے بات کی تو میں اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا۔ عمران خان نے اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک جو افغانستان کی خراب صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا وہ پاکستان ہے، پاکستان نے گذشتہ15سالوں کے درمیان70ہزار جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت مشکل ترین صورت سے ریکور کررہی ہے اورپاکستان کسی صورت افغانستان میںبدامنی نہیں دیکھنا چاہتا ، میں آپ کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوںکہ ہم سے کوئی ملک نہیں جس نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوششیں کیں تاکہ وہ افغان مسئلہ کو سیاسی انداز میں حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگانا انتہائی غیر مناسب ہے، اگر میں امن میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا تو میں کیوں کابل آیا، میرے کابل کے دورہ کامقصد یہ یقین دہانی کروانا تھا کہ پاکستان امن میں شراکت دار اور افغانستان میں جو کچھ ہورہاہے جب اس کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے تو اس سے مجھے بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے یہ دو دہائیوں سے جاری لڑ ائی جھگڑے اور گہری تقسیم کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ افغان مسئلہ کا فوجی حل تلاش کررہا تھا جو کہ ممکن نہ تھا۔ جب افغانستان میں نیٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی موجود تھے اور سب سے بڑی ملٹری مشین موجود تھی و ہ وقت تھا کہ جب طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا جاتا۔ کیوں طالبان کمپرومائز کریں گے جب افغانستان چھوڑنے کی تاریخ دے دی گئی تھی اور صرف چند ہزار امریکی فوجی ہی رہ گئے تھے، کیوں طالبان ہماری بات سنیں گے ، جب انہیں فتح نظر آرہی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میری گذشتہ رات ازبک صدر شوکت مرزیوف کے ساتھ تفصیلی بات ہوئی کہ ہم تمام ہمسائیہ ممالک کس طرح افغانستان میں امن اور مسئلہ کے سیاسی حل میںمددکرسکتے ہیں، یہ ہم تمام ہمسائیہ ممالک کے مفاد میں ہے کہ افغانستان کا مسئلہ پُرامن طور پر حل ہو۔ انہوں نے کہاکہ پہلے ہی پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اور مزید افغان مہاجرین آجائیں گے اور ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ ان کا بوجھ برداشت کر سکے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو افغانستان میں قیام امن کے لئے سب سے زیادہ کوششیں کررہا ہے۔