ہمیں اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں کس طرح کا سیاسی نظام نافذ ہوگا

 وہ اسی ہفتے طالبان قیادت کی ایک میٹنگ میں شامل ہونے والے ہیں جس میں گورننس کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، ترجمان وحیدالدین ہاشمی

کابل (ویب ڈیسک)

طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں جمہوری طرز کی حکومت نہیں ہوگی۔ ملک کا نظام ایک شوری کونسل چلائے گی اور طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخون زادہ اس کے سپریم لیڈر ہوسکتے ہیں۔طالبان کے ترجمان وحیدالدین ہاشمی نے بتایا کہ ابھی ایسے بہت سارے امور طے کرنے ہیں کہ طالبان کس طرح افغانستان کو چلائیں گے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ افغانستان جمہوری ملک نہیں ہوگا۔برطانوی خبر رساں ادارے کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی جمہوری نظام نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں کس طرح کا سیاسی نظام نافذ ہوگا کیونکہ یہ پہلے سے ہی واضح ہے۔ یہا ں شرعی قانون نافذ ہوں گے اور بس۔ طالبان کی اعلی قیادت سے قریبی تعلقات رکھنے والے ہاشمی نے بتایا کہ وہ اسی ہفتے طالبان قیادت کی ایک میٹنگ میں شامل ہونے والے ہیں جس میں گورننس کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔افغانستان پر کنٹرول کرلینے والے طالبان کے ترجمان وحیدا للہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اسلام پسند جنگجو تحریک کے رہنما ہیبت اللہ اخون زادہ کے ہاتھوں میں ہی حکومت کی کمان رہے گی اور وہ نئی حکومت میں سپریم لیڈر ہو سکتے ہیں۔وحیداللہ ہاشمی نے آئندہ حکومت میں اقتدار کے ڈھانچے کا ایک خاکہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ سن 1996سے سن 2001 کے درمیان افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران تھا۔ سپریم لیڈر ملا عمر بالعموم پس پردہ رہتے تھے اور کاروبار مملکت کے حوالے سے فیصلہ کونسل کرتی تھی۔ہاشمی نے مزید کہا کہ اخون زادہ کونسل کے سربراہ سے اوپر ہوں گے اور کونسل کا سربراہ ملک کے صدر کے مساوی ہوگا۔ انہوں نے کہا،ہوسکتا ہے اخون زادہ کے نائب کو صدر کے عہدے پر فائز کیا جائے۔اس وقت طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخون زادہ کے تین نائبین ہیں۔ ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، حقانی نیٹ ورک کے طاقت ور رہنما سراج الدین حقانی اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ عبدالغنی برادر، جو اس گروپ کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔