خصوصی کمیٹی اطلاعات و نشریات نے حکومت سے ” فیک نیوز ” بارے قانونی تشریح مانگ لی
کمیٹی کی کارکن صحافیوں کے حقوق و تحفظ سے متعلق زیر التوا بلز کی منظوری کے لیے فوری پیشرفت کی سفارش
اے پی این ایس ، سی پی این ای ، پی پی اے اور پی آر اے نے ایک بار پھر مشترکہ طور پر مجوزہ پی ایم ڈی اے کو مسترد کر دیا
حکومت نے تاحال قانونی مسودہ ہی تیار کیا نہ ہی پی ایم ڈی اے سے متعلق کوئی آرڈیننس لایا جا رہا ہے، فرخ حبیب
خصوصی کمیٹی کی سربراہی پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اعتراض اٹھا دیا گیا

اسلام آباد (  ویب نیوز) قومی اسمبلی کی اطلاعات و نشریات سے متعلق خصوصی کمیٹی نے حکومت سے ” فیک نیوز ” کے بارے میں قانونی تشریح مانگ لی ۔کمیٹی نے کارکن صحافیوں کے حقوق و تحفظ سے متعلق زیر التوا بلز کی منظوری کے لیے فوری پیشرفت کی سفارش کی ہے جبکہ اے پی این ایس ، سی پی این ای ، پی پی اے اور پی آر اے  نے ایک بار پھر مشترکہ طور پر مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کر دیا ہے ۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ حکومت نے تاحال قانونی مسودہ ہی تیار نہیں کیا اور نہ ہی پی ایم ڈی اے سے متعلق کوئی آرڈیننس لایا جا رہا ہے ۔ خصوصی کمیٹی کی سربراہی پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اعتراض اٹھا دیا گیا ہے ۔ خصوصی کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن مریم اورنگزیب کی صدارت میں پیمرا ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا ۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ، پی آر اے اور صحافیوں کی تنظیموں کے سرکردہ نمائندوں نے بھی شرکت کی اور اپنا موقف پیش کیا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین ڈاکٹر نفیسہ شاہ ، کنول شوذب شریک ہوئیں ۔ وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا کہ حکومت نے متذکرہ اتھارٹی کے حوالے سے تجاویز اور سفارشات مرتب کی ہیں ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ابہام موجود ہے کہ کیا یہ قانون کا مسودہ ہے  یا صرف تجاویز ہیں اگر عملدرآمد کا فریم ورک ہے تو قانون کہاں ہے ۔ فرخ حبیب نے کہا کہ قانون کے بارے میں مجوزہ فریم ورک ہے ۔ موجودہ تقاضوں کے مطابق اپنے میڈیا سے متعلق ریاستی اداروں کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا گیا ہم ایک جامع اور موثر قانون لانا چاہتے ہیں ۔ پہلی حکومتی تجاویز ہیں جن پر وسیع مشاورت کی جا رہی ہے ۔ پارلیمان اجتماعی بصیرت کا فورم ہے طے وہاں ہو گا ۔ اس کے باوجود کہ کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے روایتی ضابطہ کار کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور تین رکنی کمیٹی میں دو ارکان اپوزیشن سے لے لیے گئے ۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ مریم اورنگزیب ایک طرف سڑک پر پی ایم ڈی اے کو کالا قانون قرار دے رہی ہیں کمیٹی میں ان کی پوزیشن کیا ہو گی کیا موقف ہو گا ۔ ہم چاہتے ہیں اس پر معنی خیز بات چیت ہو کمیشن پر حکومت کا اثر رسوخ ہو گا نہ اس کمیشن کا ذرائع ابلاغ اور ڈیجیٹل میڈیا کے آپریشنل معاملات سے کوئی تعلق ہو گا۔ اس حوالے سے کمیشن کی کوئی عملداری نہیں ہو گی ۔ پاکستان میں کئی ایک بیرونی ایپس فعال ہیں مگر یہ ٹیکس ادا نہیں کرتیں اورنہ ہی پاکستان کے مواد کی ان ایپس پر تشہیر کی جاتی ہے ۔ نیٹ فلیکس پر بھی پاکستان کا مواد موجود نہیں ہوتا جبکہ بھارت کو تمام ایپس تک رسائی ہے وہاں قوانین بھی سخت ہیں ۔ جب ٹوئیٹر پر کورونا کے حوالے سے بھارت سے منسوب کیا جانے لگا تو بھارت نے  ٹوئیٹر کو متنبہ کیا کہ اس کے سارے دفاتر بند کر دئیے جائیں گے اور بھارتی کورونا اصطلاح کو ڈیلٹا کورونا میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ پاکستان میں اگر ایسی صورتحال ہوتی تو یہاں کوئی سسٹم ہی نہیں ہے ایک لوئر کورٹ نے ملک میں متنازع پوسٹ پر ایک شہری کی درخواست پر سی ای او فیس بک کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم سنایا مگر کوئی قانون ہی نہیں ہے  ۔انہوں نے کہا کہ قانون بنانے سے قبل فریم ورک کے بارے میں یقینا ہانگ کانگ اور دیگر کئی ممالک کے قوانین کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ مریم اورنگزیب کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے قوانین کو اکٹھا کر دیا گیا ۔ فرخ حبیب نے کہا کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل کئی سال سے زیر التوا ہے اب انسانی حقوق کمیٹی میں زیر بحث ہے ۔ قانون بنانے سے قبل رائے لے رہے ہیں ۔ کارکنوں کا معاشی تحفظ اور فیک نیوز کا سدباب چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا بھی کوئی قانون نہیں ہے جب کوئی مسودہ بنے گا تو اسے وزارت قانون کو ارسال کیا جائے گا ۔ نفیسہ شاہ اور مریم اورنگزیب کا موقف تھا  کہ فیک نیوز کی تشریح کیا ہے ۔ وزیر مملکت نے کہا کہ ابھی کوئی بل ہی تیار نہیں ہوا ۔ Offcom میں بھی اس طرح کے ضابطہ کار موجود ہیں ۔ کمیٹی میں اپوزیشن جماعتوں کی اراکین کا موقف تھا کہ کسی ایک ملک کی مثال پیش کریں جہاں تمام ادارے ایک چھتری تلے ہوں ۔ وزیر مملکت ایسی کوئی نظیر پیش نہ کر سکے ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کا اختیار 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے پاس ہے کیا اس کو وفاق کے ماتحت لایا جا رہا ہے ۔ فرخ حبیب نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو ریورس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی کنول شوذب نے کہا کہ  میں اس بات پر احتجاج کرتی ہوں کہ ان کی جماعت کو کمیٹی میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی سربراہی پر بھی اعتراض ہے اور اس بارے میں چیئرمین مرکزی کمیٹی کو خط لکھ دیا ہے کیونکہ کنوینئر کمیٹی تو سڑک پر  اسے کالا قانون قرار دے رہی ہے ۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور پیچیدہ معاملے پر ہاتھ ڈال رہی ہے ۔ پیکا کے کالے قانون کو تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا ۔ کوئی حکومتی ارادے سے آگاہ ہی نہیں ہے ۔ اے پی این ایس کے سابق صدر مجیب الرحمان شامی نے ملک بھر کے صحافیوں کی جانب سے موقف پیش کیا کہ حکومت فیک نیوز کی قانونی تشریح کرے ۔ فیک نیوز سے حکومت کا مطلب کیا ہے ۔ حکومت کیا چاہتی ہے ۔ جب کسی اتھارٹی کا مسودہ ہی نہیں ہے  تو پہلے سے کیوں ہنگامہ برپا کر دیا گیا ہے حکومت نے کیوں اس معاملے پر تیزی دکھائی ۔ دیگر میڈیا کی تنظیموں نے بھی مجیب الرحمان شامی کے موقف کی حمایت کی ۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کی طرف سے میر ابراہیم نے موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نیت پر کیوں نہ شک کیا  جائے جو یہ کہہ رہی ہے کہ جہاں زیادہ ٹی وی چینلز ہوتے ہیں وہ ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے پرنٹ میڈیا مر گیا ہے پانچ سال میں الیکٹرانک میڈیا بھی مر جائے گا تنظیموں کو توڑا جاتا ہے اشتہار بند کئے جاتے ہیں ۔ فیک نیوز کی وضاحت نہیں کی جاتی جبکہ اس معاملے پر پیکا کے قانون میں تین شقیں موجود ہیں اورکئی چینلز کو جرمانے ہو چکے ہیں ۔ صحافیوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے اس کے سدباب کے لیے کوئی قانون نہیں ہے ۔ پیکا میں ہماری چار ہزار شکایات درج ہیں  ۔ شکایات کے اذالے کے بجائے ہماری تنظیموں میں میں دراڑ ڈالی جاتی ہے ۔ ایسوسی ایشن آف  الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کے صدراظہر عباس نے کہاکہ جب ادارے موجود ہیں تو قانون سازی ان کی آزادی و خودمختاری کے تحفظ کیلئے ہونا چاہیے۔ حکومت  کیوں انہیں سرکاری ادارے بنانا چاہتی ہے۔ اے پی این ایس کے رہنما سرمد علی نے کہاکہ صرف اشتہارات کیلئے شائع ہونے والے اخبارات کی حکومت کیوں روک تھام نہیں کرتی۔ سی پی این  ای سمیت ہمارے 300ارکان ہیں حکومت کی جانب سے بتایا گیاکہ 1560 اخبارات کو کم کرکے اشتہارات کیلئے 1100کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اشتہارات کیلئے شائع ہونے والے اخبارات کی اے بی سی کس نے کی، کیسے یہ سنٹرل میڈیا لسٹ پر آئے جو ادارے موجود ہیں انہیں مضبوط کریں۔ سی پی این ای کے قائم مقام صدر کاظم خان نے  موقف پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومت بتائے اس کا ارادہ کیا ہے اس کے ذہن میں کیا ہے، ابہام ہی ابہام ہے یقیناً قانون سازی حکومت کا اختیار ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے  بھی بات ہورہی ہے ہم کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے حامی ہیں۔ سینئر صحافی پرویز شوکت  اور محمد مالک نے فیک نیوز کی تشریح کا مطالبہ کیا جبکہ وزیر مملکت  برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہاکہ اگر تمام متعلقہ ادارے اتھارٹی میں ضم ہوتے ہیں تو وہ پیمرا سمیت کسی ادارے سے ملازمین کو نہیں  نکالا جائے گا۔ تجاویز کی بلواسطہ، بلاواسطہ حمایت بھی اور مخالفت بھی کی جارہی ہے۔ عزت ہتک کا کوئی موثر قانون نہیں ہے۔ بیرونی ایپس لینڈنگ رائٹس  لیتی ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتیں ہم چاہتے ہیں ان کے اکائونٹس رجسٹرڈ ہوں اور وہ ٹیکس ادا کریں۔ فیک نیوز پر بات ہونی چاہیے اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ کمیٹی میں پی آراے صدر صدیق ساجد نے بھی موقف پیش کیا اجلاس میں سی پی این ای کے رہنمائوں سردارخان نیازی، شکیل احمد ترابی، شکیل مسعود حسین اور دیگر بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی کی سفارشات کا اعلان کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے آئندہ مرحلے میں صحافیوں کی ورکرز تنظیموں ،میڈیا  سے متعلق سرکاری اداروں،سیفما سمیت ، پی ایف یو جے کے تمام گروپوں کے موقف سے آگاہی کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت سے تحریری طورپرقانون کے بارے میں حتمی رائے مانگ لی گئی ہے جبکہ حکومت کو فیک نیوز کی قانونی تشریح کے بارے میں بھی تحریری آگاہی کی ہدایت کی گئی ہے۔
#/S