قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات نے متنازعہ اشتہارات کا نوٹس لے لیا

آئندہ اجلاس میں پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن  کے نمائندے مدعو

پریس کونسل اور پریس ٹرسٹ کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار

 ایسے اشتہارات آرہے ہیں،جوغیر اخلاقی ہیں،سینیٹر فوزیہ ارشد

آئٹم نمبر…74

اسلام آباد (صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات  نے نجی ٹی چینلز میں متنازعہ اشتہارات کا ایک بار پھر نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں  پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن  کے نمائندوں کا مدعو کرنے کا فیصلہ کرلیا جب کہ پریس کونسل اور پاکستان پریس ٹرسٹ کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فوزیہ ارشد کی صدارت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔ارکان نے شکایت کی کہ المیہ ہے کہ قائمہ کمیٹیوں میں ورکنگ پیپر بر وقت پر نہیں ملتے، حکام نے کہا کہ  4  اکتوبر کو نوٹس جاری کیا گیاتھا، ہم نے 6 تاریخ کو بریف جمع کرادیا تھا، سیکرٹری اطلاعات  نے کہا کہ آئندہ مزید بہتری لائی اجئے گی سے جمع کرائیں گے۔ اجلاس میں   پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں  بھرتیوں  کے  معاملہ کا جائزہ لیا گیا۔ ڈی جی ریڈیو نے کہا کہ 53 لوگ آئی ٹی میں رکھے گئے  ہیں۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈیو کے اندر کس نے متعارف کرائے ہیں،ایک خاص بجٹ ان لوگوں پر خرچ ہو رہا ہے، یہ کس طرح سلیکٹ ہوتے ہیں،ان لوگوں کو منتخب کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ حکام نے بتایا کہ سابقہ  کمیٹی برائے متاثرہ ملازمین  نے ہمیں کہا کہ ساڑھے سات سو لوگوں کو دوبارہ رکھیں،  ارکان کا استفسار تھا کہ 53 لوگوں کو کس طرح رکھا گیا ہے، نگران وزیراطلاعات و نشریات نے کہا کہ ریڈیو میں خبروں اورپروگرامنگ میں کیٹگری ہے جو مختلف طرح کے کام کرتی ہے۔۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ  ان میں سے صرف ایک کے پاس آئی ٹی کا ڈپلومہ ہے،وزیر اور سیکرٹری اطلاعات کمیٹی بناکر اس مسئلے کو دیکھیں،اس وقت تک ڈیلی ویجز پر مزید کوئی تعیناتیاں نہ کی جائیں۔ انھوں نے  ریڈیو میں بھاری تنخواہوں والے ملازمین سے متعلق استفسار کیا جس پر ڈی جی ریڈیو نے کہا کہ میری 3 لاکھ 17ہزار تنخواہ ہے۔ اجلاس میں میڈیا کو دیئے گئے اشتہارات سے متعلق معاملہ بھی  زیر بحث آیا۔ پرنٹ میڈیاکے اشتہارات کی تفصیلات فراہم کردی گئی ہیں  حکام نے کہا کہ  متعلقہ  سارے سرٹی   فائیڈ اخبارات ہیں،  630 اخبارات کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی  نے کہا کہ موجودہ حکومت کی میڈیا پالیسی کیا ہے،اشتہار کس کودے رہے ہیں یہ آگاہی دیں ۔ اس دوارن تھیسز لکھنے کے لئے اخبارات میں اشتہار آنے کا معاملہ بھی اٹھ گیا ۔سینیٹر فوزیہ ارشد نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا  ایسے اشتہارات آرہے ہیں،جوغیر اخلاقی چیز ہیں، کیا ایسا اشتہار بھی دکھایا جاسکتا ہے کہ بچے چیٹنگ کر رہے ہیں ہیں،پریس کونسل  کی کارکردگی کیا ہے اس  بارے میں بتائیے۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ سب کچھ ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ جتنے بھی اشتہارات آتے ہیں انہیں چیک کیا جانا  ضروری چاہئے،پریس کونسل ٹوتھ لیس ہے۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ  پیمرا تو ایکٹیو ہے،  مگر کونسل کا چار سال سے چیئرمین ہی نہیں ہے،انھوں نے تجویز دی کہ نیشنل پریس ٹرسٹ سے متعلق معاملہ آئندہ اجلاس کے ایجنڈے پر رکھا جائے،اس کی ضرورت کیا ہے، یہ مردہ ہاتھی ہم نے رکھے ہوئے ہیں۔ڈرامہ کانٹینٹ(مواد) سے متعلق معاملہ  کے جائزہ کے موقع پرچیئرمین پیمرا نے کہا کہ پیمراسنسرنگ باڈی نہیں، ٹی وی پر کوئی پروگرام چلے گا تواس کے بعد پیمرا ایکشن لے سکتا ہے،ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی چیز ٹیلی کاسٹ ہو گئی اور اس کے بعد کوئی شکایت آئی تو کیا فائدہ۔ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ 5 ڈراموں پر پابندی لگائی تھی، وہ ہائیکورٹ چلے گئے،وہاں سے پابندی ہٹ گئی۔کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کو مدعو کرنے کا فیصلہ کرلیا