سینٹ قائمہ کمیٹی  اطلاعات و نشریات کا اجلاس، صحافیوں کا تحفظ بل  2021  آئندہ اجلاس تک موخر

 پرنٹ، الیکٹرونک اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے ذریعے اشتہارات کی مد میں اخراجات کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

اسلام آباد(ویب  نیوز)ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹرفیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 29نومبر 2021کو منعقد ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، سینیٹ ہاوس سے 15نومبر2021کو ریفر کئے گئے صحافیوں کے تحفظ کے بل 2021 کے علاوہ کمیٹی اجلاس میں 2008سے 2013، 2013سے 2018اور 2018سے اب تک پرنٹ، الیکٹرونک اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے ذریعے اشتہارات کی مد میں اخراجات کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی اجلاس میں 2008سے 2013، 2013سے 2018اور 2018سے اب تک پرنٹ، الیکٹرونک اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے ذریعے اشتہارات کی مد میں اخراجات کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وزارت اطلاعات ونشریات نے بہت محنت اور لگن سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دیئے گئے اشتہارات کی رپورٹ تیار کی ہے۔پرنٹ میڈیا کے 2008 سے اب تک کے اشتہارات کی مکمل تفصیلات فراہم کی گئی ہیں البتہ الیکٹرانک میڈیا کی 2008 سے2013 تک کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ انہو ں نے کہا کہ بہتریہی ہے کہ آج الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات کی رپورٹ کا جائزہ لے لیتے ہیں۔پرنٹ میڈیا کا پڑ ھ کر پھر جائزہ لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کو پی آئی ڈی حکام نے بتایا کہ 2008 سے2013 تک کے الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات پی آئی ڈی کے ذریعے نہیں ہوتے تھے۔ تمام محکمے آزادانہ دیتے تھے۔2013 کے بعد ریکارڈ ہونے شروع ہوئے۔ جس پرچیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام متعلقہ اداروں سے الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات کی رپورٹ لے کر قائمہ کمیٹی کو رپورٹ فراہم کی جائے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ٹی وی چینلز کو پانچ مختلف کیٹگریز میں تقسیم کر کے اشتہارات کے ریٹ مقرر کیے گئے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 2013 سے 18 کے درمیان کیٹگری اے کے چینلز میں ایک چینل کے اشتہارات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے کہ ایک ہی کیٹگری کے کچھ چینلز کو دوسرے کے مقابلے میں کم اشتہارات کیوں دیئے گئے وزارت اطلاعات ونشریات اس تضاد کی وجوہات کمیٹی کے سامنے لائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کیٹیگریز بنانے سے قبل ایک منٹ کا ریٹ پونے تین لاکھ تھا۔ 70 فیصد ویورشپ والے چینلز کیلئے اے پلس کیٹیگری بنائی گئی۔اے پلس کیٹیگری میں جیو اور اے آر وائے شامل ہیں۔ اے پلس کیٹیگری کا ریٹ ڈیڑھ لاکھ روپے فی منٹ ہے۔پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے شکیل مسعود نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اڑھائی ارب کے مختلف چینلز کے واجبات اور ساڑھے تین ارب کے اخبارات کے واجبات حکومت نے ادا کرنے ہیں۔ موجودہ حکومت کا بہت کم حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اشتہارات میڈیا پر اثر انداز ہونے کیلئے استعمال نہیں ہونے چاہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ حکومت گزشتہ حکومتوں کے قرض ادا کر رہی ہے۔ٹی وی چینلز کے بھی واجبات ادا کرنے چاہیں۔انہوں نے کہا کہ اشتہارات کے حوالے سے کچھ آڈیو ز منظر عام پر آئی ہیں جس میں کچھ چینلز کو اشتہارات دینے اور کچھ کو روکنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔وزارت اطلاعات ونشریات اس معاملے کی انکوائری کر کے قائمہ کمیٹی کو رپورٹ فراہم کرے۔ جس پر وزیر مملکت اطلاعات ونشریات فرخ حبیب نے کہا کہ اس حوالے سے انکوائری کی جارہی ہے۔ صوبوں سے بھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں جسے ہی رپورٹ مرتب ہوگی کمیٹی کو فراہم کر دی جائے گی۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے 2008 سے 2018 کے اشتہارات کے واجبات کا جائزہ لے کر ادا کر دیئے ہیں کچھ واجبات رہ گئے ہیں۔ وزارت اس پر کام کر رہی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ واجبات میں سے 80 فیصد2008 سے2013 کے ہیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اشتہارات کی بروقت ادائیگی کے حوالے سے ایک میکنزم مرتب کیا جائے جس سے نہ صرف اداروں کو بروقت ادائیگی بلکہ ورکرز کو بھی وقت پر تنخواہ مل سکے۔انہوں نے کہا کہ یہ معلومات ملی ہیں کہ کچھ اداروں میں پرانی تنخواہوں پر ورکرز سے کام لیا جارہا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ویوور شپ کے لحاظ سے اشتہارات چینلز کوملنے چاہیں نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ سپورٹس، مذہبی چینلز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کو بھی اشتہارات دیئے جائیں۔ جس پر وزیر مملکت برائے اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ اس حوالے سے پالیسی بنائی جا رہی ہے۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی کے سوال کے جواب میں شکیل مسعود نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومتیں ایڈیٹوریل کوٹول کے طور پر استعمال کر تی رہی ہیں۔ اشتہارات کو استعمال کیا جاتا ہے۔سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے کہا کہ ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ جو اشتہار جس سال کو اسی سال کی ادائیگی ہونی چاہیے۔انٹرٹینمنٹ چینلز کے ریٹ فکس کرنے کیلئے مارکیٹ کا جائزہ لینا ہوگا جس پر سینیٹر فصیل جاوید نے کہا کہ جو فارمولہ نیوز چینلز کیلئے استعمال کیا گیا تھا وہی انٹرٹینمنٹ کیلئے استعمال ہونا چاہے۔ ہفتہ، اتوار اور رمضان شریف کے دوران پرائم ٹائم تبدیل ہوجاتا ہے۔ نان پرائم ٹائم کے بھی ریٹس مقرر ہونے چاہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ 2008 سے2013 تک پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 13 ارب روپے کے اشتہارات اخبارات کو دیئے مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 2013 سے2018 تک 17.7 ارب روپے کے اشتہارات دیئے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2018 سے2022 تک 7.2 ارب روپے کے اشتہارات دیئے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ اشتہارات کی ادائیگی کے بل کی تصدیق 90 دنوں میں ہوتی ہے۔ 2013 سے2018 تک 6 ارب روپے کے اشتہارات ٹی وی چینلز کو دیئے گئے اور 2018 سے2022 تک پی ٹی آئی حکومت نے 2.1 ارب روپے کے اشتہارات دیئے۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس کے باوجود بھی کچھ ادارے ورکرز کو تنخواہ نہیں دے رہے۔انہوں نے کہا کہ 2008 سے2013 تک کتنے اخبارات کو ادائیگی کی گئی۔2013 سے2018 تک کتنے اخبارات تھے اور اب موجود حکومت کے دور میں کتنے اخبارات کو ادائیگی کی گئی ہے وہ اخبارات جو اشتہارات کا گلہ کر رہے ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وہ ادارے جو ملازمین کوتنخواہ ادا نہیں کرتے پی بی اے، اے پی این ایس اور پی ایف یو جے ان کی معلومات فراہم کریں حکومت ان کو اشتہارات بند کرے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کرکٹ سٹار شعیب اختر اور پی ٹی وی سپورٹس کے اینکر نعمان نیاز کے مابین ہونے والے واقعہ کا جائزہ لیا گیا۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کمیٹی کوبتایا کہ دونوں پارٹیوں میں صلح ہو گئی ہے۔ ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی نعمان نیاز نے کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کیا تھا جبکہ شعیب اختر کمیٹی کے سامنے بھی آئے تھے۔ نعمان نیاز کو اینکر شپ سے فورا معطل کردیا گیا تھاجبکہ شعیب اختر نے استعفی دے دیا تھا۔ جس پرچیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس معاملے سے ریاستی چینل اور ملک کی بدنامی ہوئی ہے انصاف پر فیصلہ کرنا چاہے۔نعمان نیاز کو کس بنیاد پر معطل کیا گیا ہے جب انکوائری ہی مکمل نہیں ہوئی۔قائمہ کمیٹی آئندہ اجلاس میں شعیب اختر اور نعمان نیاز کا موقف سنے گی۔ وزارت اطلاعات و نشریات ان کو آئندہ اجلاس میں مدعو کریں۔کمیٹی کے سامنے ویڈیو کلپس بھی پیش کیے جائیں پی ٹی وی نے جو انکوائری کی ہے اس کی رپورٹ بھی فراہم کی جائے۔  قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی عدم شرکت کی وجہ سے صحافیوں کے تحفظ کے بل  2021 کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔قائمہ کمیٹی کے  اجلاس میں سینیٹر ز عرفان الحق صدیقی، انور لال دین، عمر فاروق اور تاج حیدر کے علاوہ وزیر مملکت اطلاعات ونشریات کے علاوہ فرخ حبیب،سیکرٹری اطلاعات ونشریات،ایم ڈی پی ٹی وی، ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات و نشریات،اے پی این ایس، پی آئی ڈی کے حکام نے شرکت کی