افغان مشن کی تکمیل کے بعد پاکستان، امریکہ کے ساتھ مزید کثیرالجہتی اور وسیع البنیاد تعلقات کا خواہاں ہے

9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان اور امریکہ نے ملکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی

افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی نہ دہرا ئی جائے،عالمی برادری ایک جامع حکومت کے قیام کی ترغیب دے

افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے سے روکنے کیلئے ایک مستحکم حکومت کا قیام ناگزیر ہے

 پاکستان مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے پرعزم ہے، بھارت بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے

ہمیں توقع ہے عالمی برادری حق خود ارادیت اور آزادی کے نادر اصولوں کو کشمیر میں سیاست کی نذر نہیں ہونے دے گی

پاکستان اور مصر کے درمیان پارلیمانی، اقتصادی، دفاعی، تہذیبی اور علمی شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں

پاکستان نے ڈی ایٹ کے تمام معاہدوں کی توثیق، متعدد شعبہ جاتی اجلاسوں کی میزبانی کی، ہمیں قرضوں میں سہولت بارے تعاون کو فروغ دینا ہوگا

ڈی ایٹ ممبر ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے موجودہ حجم 100 ارب ڈالر کو 500 ارب ڈالر تک ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے

وزیر خارجہ کا نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز ، ڈی ایٹ کے ممبر وزرا کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب، مصری وزیر خارجہ سے ملاقات میں گفتگو

 

نیو یارک (ویب ڈیسک)

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے افغان مشن کی تکمیل کے بعد پاکستان، امریکہ کے ساتھ مزید کثیرالجہتی اور وسیع البنیاد تعلقات کا خواہاں ہے،امریکہ کے ساتھ تعلقات پاکستان کیلئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی کو نہ دہرایا جائے، عالمی برادری افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کی ترغیب دے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ اہم شراکت دار ہے۔امریکہ اب بھی ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی اور غیر ملکی ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنا بنیادی مقصد حاصل کر لیا ہے۔افغانستان میں امریکی فوجی مشن کے بعد دو طرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان اور امریکہ نے القاعدہ کی بنیادی قیادت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنا بنیادی مقصد حاصل کر لیا ہے۔وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں پاک امریکہ تعلقات اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے متحرک اور فعال کردار پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے افغان مشن کی تکمیل کے بعد پاکستان، امریکہ کے ساتھ مزید کثیرالجہتی اور وسیع البنیاد تعلقات کا خواہاں ہے،پاک امریکہ تعلقات کو جس حوالے سے جانا جاتا تھا پاکستان اس سابقہ روش سے باہر نکلنے کا خواہاں ہے ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان اور امریکہ نے ملکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات، پاکستان کیلئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں،امریکہ سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔پاکستان کے ذہین نوجوان آج بھی تعلیم کی غرض سے امریکی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں جبکہ امریکہ میں مقیم سیاسی طور پر متحرک پاکستانی کمیونٹی پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں پل کا کردار ادا کرتی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، اقتصادی ترجیحی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ہم پاک امریکہ تعلقات میں تجارت ، سرمایہ کاری ، اور عوامی سطح پر تعلقات کے حوالے سے نئے امکانات کے متلاشی ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان  220 ملین افراد پر مشتمل ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے، جہاں ٹیکنالوجی اور قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں جہاں امریکی کمپنیاں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔پاکستان نے گذشتہ چالیس سال سے افغانستان میں جاری عدم استحکام کی بھاری قیمت ادا کی۔ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ معاشی اعتبار سے مضبوط پاکستان خطے میں استحکام کا مظہر ہو گا۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف روزگار اور معاشی خوشحالی کے حصول اور افغان عوام کو اپنے ملک کی تعمیر نو میں مدد دینے کیلئے پاکستان، امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا متمنی ہے۔ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی کو نہ دہراتے ہوئے عالمی برادری افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کی ترغیب دے ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے سے روکنے کیلئے ایک مستحکم حکومت کا قیام ناگزیر ہے ۔طالبان کو بھی انسداد دہشت گردی ، انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی شمولیت سے متعلق اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی برادری ممکنہ انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے افغان عوام کی فوری مدد کو یقینی بنائے۔کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے منصب سنبھالنے کے فورا بعد بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ بھارت نے نہ صرف اس امن کی پیشکش کو ٹھکرایا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو اپنے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے پورے خطے کو غیر مستحکم بنا دیا،اس کے باوجود  بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے میں ناکام رہا۔سید علی شاہ گیلانی کے انتقال پر بھارت کی بوکھلاہٹ اور غیر انسانی روئیے نے ساری دنیا کے سامنے اسکی قلعی کھول دی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے پرامن حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن یہ ذمہ داری بھارت پر ہے کہ وہ بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔ ہمیں توقع ہے کہ عالمی برادری حق خود ارادیت اور آزادی کے نادر اصولوں کو کشمیر میں سیاست کی نذر نہیں ہونے دے گی ۔وزیر خارجہ نے شرکا کی جانب سے پاک امریکہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے اور پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا۔اس تقریب میں معروف تجزیہ کاروں، تھنک ٹینک کمیونٹی کے ممبران کے علاوہ میڈیا نمائندگان کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔جبکہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی نیویارک میں مصری وزیر خارجہ سامح شکری سے ملاقات ہوئی۔ دوران ملاقات دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ  خیال۔اس موقع  پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان، مصر کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان اور مصر کے مابین یکساں مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار، ان تعلقات کو مزید مستحکم کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان اور مصر کے درمیان  پارلیمانی، اقتصادی، دفاعی، تہذیبی اور علمی شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ میں  پاک – مصر فرینڈشپ گروپ دونوں ممالک کے درمیان پارلیمانی روابط کے فروغ کیلئے متحرک ہے۔ جبکہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں ڈی- ایٹ کے ممبر وزرا کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں اظہار خیال کرتے  ہوئے کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں اس اجتماع کی میزبانی پر بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس اجلاس کے منعقد کروانے میں ڈی – ایٹ تنظیم کے سیکرٹری جنرل ایمبیسڈر داتو کو جعفر شاری اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پاکستان ڈی ایٹ کے قیام سے ہی اس تنظیم کے متحرک اور فعال ممبر کے طور پر ذمہ داریاں نبھاتا آ رہا ہے۔ پاکستان نے 2012 میں آٹھویں ڈی ایٹ اجلاس کی میزبانی کی ڈی ایٹ چارٹر اور گلوبل وژن جیسی تاریخی دستاویز پر دستخط اسلام آباد سمٹ میں کیے گئے۔ پاکستان نے 2013 اور 2014 میں بلترتیب ڈی ایٹ کونسل آف فارن منسٹرز کے پندرھویں اور سولہویں اجلاس کی میزبانی کی۔ پاکستان نے ڈی ایٹ کے تمام معاہدوں کی توثیق کی اور متعدد شعبہ جاتی اجلاسوں کی میزبانی کی۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان نے گذشتہ سال وبائی صورتحال کے باوجود  پانچ شعبہ جاتی اجلاس منعقد کیے۔ ان اجلاسوں میں  زراعت اور فوڈ سیکورٹی پر ڈی ایٹ اعلی سطح ماہرین کا اجلاس، ڈی – ایٹ وزارتی اجلاس برائے زراعت و فوڈ سیکورٹی، ٹیکنالوجی کے تبادلے سے متعلق اعلی کونسل کا اجلاس اور ڈی ایٹ ممبر ممالک کے مابین ویزہ سہولت کے حوالے سے قونصلر اجلاس شامل ہیں۔ ڈی – ایٹ 4 کھرب ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ ایک ارب انسانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہماری مشترکہ تہذیبی و مذہبی اقدار اور روایات ہمیں ڈی-ایٹ پلیٹ فارم کے تحت باہمی تعاون کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ آج جب ہم یہاں مل کر مربوط باہمی تعاون کے مشترکہ عہد کی تجدید کر رہے ہیں ہمیں اس موقع پر اب تک اٹھائے گئے اقدامات پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آج سے 23 سال قبل ہماری مشترکہ سوچ نے زراعت، صنعت، تجارت، توانائی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے جذبے نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ مگر وہ توقعات جو وابستہ کی گئی تھیں وہ مکمل طور پر پوری نہ ہو سکیںمیں آپ سب کے سامنے ڈی ایٹ کے دسویں اجلاس میں "روڈ میپ” کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تجویز کردہ "پانچ نکات”کو دوبارہ پیش کرنا چاہوں گا۔ہمیں کورونا وبا کے صحت اور معیشت سے متعلقہ بحران سے نکلنے کیلئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا۔ ہمیں قرضوں میں سہولت کے حوالے سے ڈی -ایٹ ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (SDRs) کے قیام اور تقسیم سے متعلق طریقہ کار کی تشکیل۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے معاشی وسائل کی دستیابی،غیر قانونی ترسیل زر کا خاتمہ، ترقی پذیر ممالک کو ان کی چوری شدہ دولت کی واپسی ڈی ایٹ ممبران کو آج پھر سے دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ کرونا وبا کے مضمرات سے نمٹنے کیلئے ان پانچ نکات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ڈی ایٹ ممبر ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے موجودہ حجم 100 ارب ڈالر کو مقررہ حجم 500 ارب ڈالر تک ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ڈی ایٹ ممبر ممالک کے درمیان نوجوانوں کے لئے کلچر، تعلیم، اور سائنسی شعبوں میں تبادلوں کیلئے "یوتھ انگیجمنٹ حکمت عملی” بنائی جائے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی، اقتصادی ترقی کی راہیں کھولتی ہیں۔ ہمیں علمی بنیادوں پر اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے وسائل کو سائینسی تحقیق اور ڈیجیٹائزیشن میں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ڈی ایٹ فورم کو اپنے شہریوں کی زندگیوں سے متعلقہ بنانے کیلئے فوڈ سیکورٹی، صحت، کھیل، اور قدرتی آفتوں کے دوران تعاون کو بڑھانا ہو گا۔ ان اعلی سطح اہداف کے حصول کیلئے ہمیں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ معیشتوں کا اقتصادی تعاون درکار ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ ہماری مشترکہ سوچ اور عزم اس فورم میں نئی روح پھونکنے میں معاون ثابت ہو گا۔ پاکستان ڈی ایٹ کے وژن اور مقاصد کی مکمل تائید کرتا ہے۔ہم اس تنظیم کو مزید مستحکم بنانے کیلئے اپنی کاوشیں بروئے کار لاتے رہیں گے۔