نئی دہلی (ویب ڈیسک)
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ کے ایک سال بعد ہندوستان نے اپنے سرحدی دفاع کو مزید تیزی سے مضبوط بنانے کے لیے کام شروع کردیا ہے جہاں یہ مقام دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے ایک وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اروناچل پردیش تبت سے ہمالیہ کے دوسرے کنارے تک پھیلا ہوا ہے اور اپنے شمالی پڑوسی چین کے ساتھ مشترکہ بدھ ثقافتی ورثے کا حامل ہے۔چینی حکمرانی کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد دلائی لاما 1959 میں ریاست سے فرار ہو گئے تھے اور تب سے وہ ہندوستان میں مقیم ہیں۔بیجنگ اروناچل پردیش کو جنوبی تبت قرار دیتے ہوئے اس پر اپنی ملکیت کا دعوی بھی کرتا ہے اور 1962 میں مختصر خونریز جنگ کے بعد زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔2020 کے وسط سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا جب دونوں ملکوں کی فوج میں میں ہاتھوں سے ہونے والی جھڑپ میں کم از کم 20 ہندوستانی اور چار چینی فوجی ہلاک ہوگئے۔ہر فریق معمول کے مطابق اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں گشت کرتا ہے تاہم بھارت نے چین پر سرحد کے قریب مستقل بستیاں قائم کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔بھارت نے اروناچل پردیش میں اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہوئے کروز میزائل، ہووٹزر، امریکی ساختہ چنوک ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر اور اسرائیل میں بنائے گئے ڈرونز کو نصب کیا ہے۔ہندوستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ خطے کا جغرافیہ انسانوں کے لیے نقصان دی ہے، اگر کوئی مکمل طور پر فٹ، تربیت یافتہ یا موسم کے لحاظ سے تیار نہیں ہے تو یہ موسم مہلک ہوسکتا ہے۔فوجی انجینئر سطح سمندر سے 13ہزار فٹ کی بلندی پر ایک بہت بڑی سرنگ بنا رہے ہیں جو اگلے سال تک کھلنے کا امکان ہے تاکہ اس علاقے کو جنوب کی جانب سے مزید راستوں سے منسلک کیا جا سکے۔پراجیکٹ کے ڈائریکٹر کرنل پرکشت مہرا نے کہا کہ ان سرنگوں کی تعمیر کے بعد توانگ میں مقامی لوگوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہر موسم میں رابطہ ممکن ہو سکے گا۔اسی طرح کا ایک منصوبہ لداخ میں زوجیلا پہاڑی درے کے چٹانی خطوں کے نیچے چل رہا ہے کیونکہ وہاں سے موسم سرما میں گزرنا ناممکن ہے اور اس کی تعمیر کے بعد کشمیر میں ہندوستانئی فوج کو تیز تر امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔