بھارتی ریاست منی پور میں مزید چھاپے اور گرفتاریاں: خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو میں موجود مرکزی ملزم کا گھر نذرِ آتش
جھڑپوں میں اب تک 140 سے زیادہ افراد ہلاک، 50 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے
سوشل میڈیا پروزیر اعلی اور انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے استعفے کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے استعفے کے مطالبے کا ہیش ٹیگ بھی گردش کر رہا

نئی دہلی (ویب نیوز  )

انڈیا کی ریاست منی پور میں مئی میں کوکی اور میتی برادریوں کے درمیان جھڑپوں کے آغاز کے بعد سے اب تک 140 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ 50 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔برطانوی نشریاتی ا دارے کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز خواتین کے ایک گروپ نے مقدمے میں گرفتار مرکزی ملزم کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ یہ وہی شخص ہے جسے مبینہ طور پر ویڈیو میں متاثرہ خاتون کو پکڑے ہوئے دیکھا گیا ہے اور انھیں جمعرات کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے گھر کو نذرِ آتش کرنے والی خواتین میتی برادری کی سب سے مضبوط تنظیم میرا پیبی سے وابستہ ہیں، جو کئی دہائیوں سے منی پور میں ایک سماجی تحریک چلا رہی ہے۔اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی عدالت عظمی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے دونوں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو الٹی میٹم جاری کیا ہے کہ وہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں یا ایک طرف ہٹ جائیں اور عدلیہ کو کارروائی کرنے دیں۔ان دونوں حکومتوں پر منی پور میں حالات کو معمول پر لانے میں ناکامی کا الزام ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف وزیر اعلی اور انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے استعفے کی بات ہو رہی ہے وہیں وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے کا ہیش ٹیگ بھی گردش کر رہا ہے۔اب تک ریاست میں تشدد کے تقریبا پانچ ہزار کیس درج کیے جا چکے ہیں تاہم انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مہینوں سے جاری اس مہلک نسلی تنازعے پ اپنی خاموشی جمعرات کے روز اس وقت توڑی تھی جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں کئی خواتین کو برہنہ پریڈ کروایا گیا، مارا پیٹا گیا اور ان میں سے ایک کے ساتھ مبینہ طور ریپ ہوا تھا۔دریں اثنا پارلیمنٹ میں حزب اختلاف منی پور میں ہونے والے فسادات پر وزیراعظم کی خاموشی پر سراپا احتجاج ہے لیکن انڈین میڈیا کے مطابق گذشتہ روز وزیر اعظم دونوں ایوانوں سے غیر حاضر رہے۔بہرحال انھوں نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان جاری تنازعے پر اپنا پہلا تبصرہ کیا اور کہا کہ خواتین پر حملے سے ‘پورا ملک شرمسار ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ میں قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جب میں جمہوریت کے اس مندر کے پاس کھڑا ہوں تو میرا دل درد اور غصے سے بھر جاتا ہے۔کانگریس کے سینیئر لیڈر اور ترجمان جے رام رمیش نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ایک خوفناک ویڈیو نے وزیر اعظم کو منی پور پر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کیا حالانکہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ مکمل طور پر مغالطے میں ڈالنے والا تھا اور اس سانحہ پر توجہ نہیں دیتا جو تین مئی کے بعد ریاست میں رونما ہوا ہے۔انھوں نے مزید لکھا: اب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 12 جون کو قومی کمیشن برائے خواتین میں وہاں ہونے والے ہولناک ظلم و ستم پر جو شکایت کی گئی تھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ منی پور کے وزیر اعلی نے ٹیلی ویژن پر اعتراف کیا کہ یہ صرف ایک مثال ہے اور اس طرح کی مزید بربریتیں ہوئی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلی کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں، انھیں فوری طور پر استعفی دینا چاہیے۔ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں بولنا چاہیے جس کے بعد بحث ہونی چاہیے۔انڈیا کے معروف اخبار دی ہندو نے لکھا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی نمائندوں کی طرف سے پارٹی لائنوں سے ہٹ کر اظہار برہمی کے بعد مسٹر مودی، جنھوں نے منی پور میں ہونے والے مشتعل تشدد پر واضح اور غیر واضح خاموشی اختیار کر رکھی تھی، اس جرم پر غور کیا اور قصورواروں کو سزا دینے کا وعدہ کیا۔ ایک ایسے لیڈر کے لیے جس نے ہمیشہ لائم لائٹ میں رہنے اور نشریات پر غلبہ حاصل کرنے کی ضرورت کو اہمیت دی ہے منی پور کے تشدد پر اب تک مسٹر مودی کے موقف نے ریاست کے بحران کے متعلق ایک غیر سنجیدہ رویہ کو فریب دیا ہے۔’خیال رہے کہ منی پور میں تین مئی سے پر تشدد واقعات جاری ہیں جس کے نتیجے میں ایک سو سے زیاد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس دوران انٹرنیٹ سروسز بند تھیں جب انٹرنیٹ سروسز بحال ہوئی ہیں تو یہ ویڈیوز سامنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جو اب دھیرے دھیرے سامنے آ رہے ہیں۔گذشتہ دنوں جو خواتین کے برہنہ پریڈ کی ویڈیو آئی تھی اس نے دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ریپ سے متاثر ہونے والی 19 سالہ لڑکی نے خود اس حملے کی تفصیلات انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کو بتائی ہیں۔جب وزیر اعلی سے پوچھا گیا کہ چار مئی کو دو خواتین کو برہنہ کر کے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور پھر ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا اور اس کے بعد 18 مئی کو اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ کیا وزیر اعلی کو اس کا علم ہے؟ تو اس پر انھوں نے کہا کہ ایسے سینکڑوں کیسز ہو چکے ہیں۔ریپ سے متاثر ہونے والی 19 سالہ لڑکی نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ وہ منی پور کے ایک ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میتی کمیونٹی کے لوگوں کے ایک ہجوم نے چار مئی کو ان پر حملہ کیا تھا۔لڑکی نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ وزیر اعلی این بیرن سنگھ نے جمعرات کو کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے گھناونے جرائم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔لڑکی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ سب وائرل ویڈیو دیکھ کر کہہ رہے ہیں؟طالبہ نے کہا کہ وزیر اعلی اس طرح کی مزید کتنی ویڈیوز کا انتظار کریں گے کہ وہ یقین کریں کہ خواتین پر صرف اس لیے حملہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک نسلی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔’اس کے متعلق جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح 150 مسلح مردوں اور خواتین نے 4 مئی کی شام میرے انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کیا اور انھیں نشانہ بنایا۔لڑکی نے اخبار کو بتایا: ‘میں نے پہلے صفر ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ (یہ ایف آئی آر کسی بھی تھانے میں درج کی جا سکتی ہے، خواہ یہ واقعہ اس تھانے کے علاقے میں پیش آیا ہو یا نہیں۔)انھوں نے دہلی کے اتم نگر پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کیونکہ انھیں منی پور میں علاج کے بعد مزید علاج کے لیے دہلی کے ایمس لایا گیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ وہ پھر منی پور واپس پہنچیں اور 30 مئی کو چوراچند پور پولیس سٹیشن میں ایک اور صفر ایف آئی آر درج کرائی۔19 سالہ طالبہ نے بتایا کہ یہ ایف آئی آر اس تھانے میں بھیجی گئی جس کے دائرہ اختیار میں ان کا ادارہ آتا تھا۔طالبہ نے کہا کہ ‘میں کئی دنوں تک ہسپتال میں پڑی رہی لیکن کسی نے میرا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ جب کہ یہ ہسپتال امپھال کے تھانے سے محض چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔لڑکی نے کہا کہ میرے ساتھ چار مئی کو جو ہوا اس کا داغ اب بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حملہ آور ان کے انسٹی ٹیوٹ میں گھس آئے تھے اور کوکی طلبہ کے شناختی کارڈ چیک کر کے انھیں نشانہ بنا رہے تھے۔ ہاسٹل میں 90 طالب علم تھے۔انھوں نے کہا کہ وہاں ہم دس لڑکیاں تھیں۔ دو کو پولیس نے بچا لیا اور چھ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔لڑکی نے کہا کہ مجھے اور میرے دوست کو پہچان لیا گیا اور پکڑ لیا۔ ہمیں آرام بائی ٹینگول اور میتی لیپن (انتہا پسند میتی نوجوانوں کا گروپ) کے نوجوانوں اور خواتین نے پکڑ لیا۔لڑکی نے کہا کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ یہ لوگ ہمیں فٹبال کی طرح لات مارتے رہے۔ لوگ ٹولیوں میں ہم پر کود رہے تھے۔ میرے الفاظ اب یہ بیان کرنے میں ناکام ہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔’میں ان خواتین کی آوازوں کو کبھی نہیں بھول سکتی جو ہم پر حملے کے وقت خوشی سے چیخ رہی تھیں۔ وہ ان نوجوانوں کو ہمیں مارنے کے لیے اکسا رہی تھیں۔’بے ہوش ہونے سے پہلے، میں سن سکتی تھی کہ میں زندہ ہوں یا نہیں۔ وہ شاید مجھے مردہ سمجھ کر چلے گئے تھے۔’جب مجھے ہوش آیا تو مجھے جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، امپھال کے آئی سی یو میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ پولیس والوں نے مجھے اٹھا کر وہاں داخل کروایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘میرے کچھ دوست اور خاندان والے مجھے دہلی کے ایمس لے گئے اور مجھے وہاں داخل کروایا گیا۔انھوں نے اخبار کو بتایا کہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں کریئر بنانے کا میرا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔طالبہ نے کہا کہ اگر آپ چورا چند پور جائیں تو آپ کو سینکڑوں خواتین ملیں گی جن کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ انھیں نشانہ بنانے کے لیے تین مئی سے منصوبہ بندی شروع کر دی گئی تھی۔ہم اب بھی سن رہے ہیں کہ یہ حملے اب بھی ہو رہے ہیں لیکن ان میں کچھ کمی آئی ہے۔معروف مصنف سنجے جھا نے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’56 انچ والے نے 78 دنوں بعد منی پور پر 36 سیکنڈ بات کی۔ اور وہ بھی ایک خوفناک ویڈیو کے عوام کے سامنے آنے اور سپریم کورٹ کی جانب سے بے شرم حکومت کی سرزنش کے بعد۔’دی ہندو اخبار نے مزید پرتشدد واقعات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں ایک 45 سالہ خاتون کے زندہ جلانے کے واقعات کا ذکر ہے۔صبا خان نامی ایک صارف نے دو ویڈیوز ڈالتے ہوئے لکھا کہ ‘انٹرنیٹ کی بحالی کے بعد منی پور سے خوفناک ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ پہلی میتی شدت پسند منی پور یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہ کوکی طالب علموں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسرے میں خوفزدہ کوکی لڑکیان ویڈیو ریکارڈ کر رہی ہیں جبکہ شدت پسند ان کا شکار کر رہے ہیں اور انھیں ہاسٹل میں ریپ کر رہے ہیں۔’دریں اثنا منی پور پولیس نے وائرل ویڈیو کے تعلق سے چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔ منی پو پولیس نے بتایا کہ وائرل ویڈیو کیس میں تین مزید ملزمان گرفتار ہوئے ہیں اس طرح اب گرفتار ہونے والوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔منٹ اخبار کے مطابق پولیس نے کہا کہ وہ تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
#/S