کراچی (ویب ڈیسک)

صدر ایف پی سی سی آئی میاں ناصر حیات مگوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ایم ایز آسان فنانس اسکیم (SAAF) کے تحت 9 فیصد تک شرح سود پر گہرے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں انہو ں نے مزید کہاکہ ایس ایم ایز نے ضمانت سے پاک SAAF اسکیم کے اعلان کو سراہاتھا؛ لیکن 9فیصد کی شرح سودنے اسے ایس ایم ایز کے لیے ناقابل برداشت، غیر پیداواری اور غیر معاون بنادیا ہے۔میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے کہ اسٹیٹ بینک نے 8 بینکوں کوSAAF اسکیم کے تحت فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے؛ تاہم یہ معاشی اور کمرشل بنیادوں پر ایک انتہائی کمزور فیصلہ ہے کہ ان 8 بینکوں کواسٹیٹ بینک کی قرضہ فیس کے جوکہ 1فیصد ہے کے علاوہ 8فیصد تک اپنا مارجن چارج کرنے کی اجازت دی جائے۔میاں ناصر حیات مگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ SAAF اسکیم میں کل شرح سود 3.0فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ؛ کیونکہ یہ شرح ایس ایم ایز کے لیے قرضوں کی ادائیگی کوTERF اسکیم کے برابر لاتے ہوئے قابل برداشت بنا ئے گی ۔جس کے تحت SBP کی فنانسنگ کے لیے 1فیصد اور بینکوں کے مارجن کے لیے 2فیصد کی اجازت ہے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ کرونا کے بعد کے منظر نامے میں دنیا میں کہیں بھی ایس ایم ایز 9 فیصد پر سرمایہ حاصل کرنے اور دیوالیہ ہوئے بغیر اسے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیںہیں۔ انہوں نے تشویش کے ساتھ یہ بھی نوٹ کیا کہ اسٹیٹ بینک خود بڑے اداروں اور کاروباری گروپوں کے لیے TERF اسکیم کے تحت زیادہ سے زیادہ شرح سود 3فیصد مقرر کرتا ہے اورایس ایم ایزکے لیے اس نے امتیازی اور غیر معاون رویہ اختیار کیا ہے۔ایس ایم ایز پر ایف پی سی سی آئی کی سنٹرل ا سٹینڈنگ کے کنوینر افتخار غنی وہرہ نے کہا کہ پاکستان بھر سے آراء کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ ایس ایم ایز  9فیصد شرح سود سے شدید نا خوش ہیں؛ کیونکہ یہ شرح سود SAAF اسکیم کو ان کے لیے ناقابل برداشت بنا دے گی۔ افتخار غنی وہرہ نے مزید کہا کہ ان کی کمیٹی نے ستمبر کے وسط میں اسٹیٹ بینک کے حکام کے ساتھ ایک تفصیلی میٹنگ کی اور ہم نے واضح طور پر اپنے خدشات سے حکام کو آگاہ کیا؛ تاہم اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں کے کانوںپرجوں تک نہیں رینگی اور شرح سود میں کسی کمی کا اعلان نہیں کیا گیا۔میاں ناصر حیات مگوںنے کہا کہ وہ اسٹیٹ بینک کے اس دعوے سے متفق نہیں ہیں کہ SAAF اسکیم پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے ؛کیونکہ ایف پی سی سی آئی کی تجویزبلکل مختلف تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایف پی سی سی آئی پاکستان کے تمام ایس ایم ایز، چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کا اعلیٰ ترین نمائندہ ادارہ ہے اور اس لیے ایس ایم ایز پر اثر انداز ہونے والی تمام پالیسیوں کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بھی ہے۔