رانا شمیم کے بیان حلفی کا کیس،سابق جج سمیت تمام فریقین کو شوکاز نوٹس جاری

 عدالت نے تمام متعلقہ افراد کو 26نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا

رانا شمیم عدالت میں پیش نہ ہوئے ،ان کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی

عدالت کے ججز جوابدہ ہیں ، انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرعوام کا عدلیہ پر اعتماد نا ہوتو پھرمعاشرے میں انتشار ہوگا،چیف جسٹس اطہر من اللہ

 میرے خلاف کارروائی کریں، میں نے یہ اسٹوری کی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھائی ہیں، رانا شمیم سے تصدیق کرکے سٹوری کی گئی،انصار عباسی

  ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف کو بھی نوٹس کریں گے، آپ نے جو کچھ کہنا ہے جواب میں لکھ کر بتائیں،چیف جسٹس اطہر اللہ من اللہ کی ہدایت

اسلام آباد (ویب  نیوز)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت  بلتستان جسٹس (ر)رانا محمد شمیم کی جانب سے دیئے گئے مبینہ بیان حلقی پر لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کردیئے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام لوگ 26نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام لو گ سات روز میں جواب جمع کروائیں اور10روز بعد کیس کی سماعت ہو گی اور عدالت تمام افراد کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کرے گی۔فریقین کو توہین عدالت کے نوٹسز 2003کے توہین عدالت قانون کے تحت جاری کئے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت  بلتستان جسٹس (ر)رانا محمد شمیم کے حلاف نامے پر لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیٹر ان چیف ایڈیٹر جنگ اخبار میر شکیل الرحمان، ریذیڈنٹ ایڈیٹر دی نیوز انٹرنیشنل عامر غوری اور ایڈیٹر انویسٹی گیشن دی نیوز انٹرنیشنل انصار احمد عباسی، اٹارنی جنرل فار پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیازاللہ خان نیازی اور جسٹس (ر)رانا محمد شمیم  کے صاحبزادے احمد حسن رانا عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس (ر)رانا محمد شمیم  کے صاحبزادے نے عدالت کو بتایا کہ ان کے والد رات ہی اسلام آباد پہنچے ہیں اور ان کی طبیعت ناساز ہے اس لئے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف ایڈیٹر جنگ اخبار سے کہا ہے کہ روسٹرم پر آجائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انہیں آزادی صحافت بہت عزیز ہے، لیکن عدالت کا احترام بھی  مد نظر رکھنا ہے،ہم نے نہ چاہتے ہیں میر شکیل الرحمان کو بلایا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ریٹائرڈ جج اور سابق چیف جسٹس کے خلاف خبر نہیں تھی بلکہ آپ کی یہ خبر اس عدالت سے متعلق ہے،یہ آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے، اس خبر سے لوگوں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے، سوشل میڈیا کی نہیں ہوتی،آپ کی رپورٹ کی وجہ سے سابق چیف جج کو نوٹس دیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے میر شکیل الرحمان کو ہدایت کی کہ وہ خبر پڑھیں ۔اس پر میر شکیل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی عینک گھر رہ گئی ہے۔ اس پر عدالت نے انصار عباسی سے کہا کہ وہ خبر پڑھیں۔ انصار عباسی کا کہنا تھا میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ پہلے آپ ہیڈلائن پڑھیں۔ عدالت نے میرشکیل الرحمان سے استفسار کیا کہ کوئی بھی حلف کہیں بھی دے تو کیا آپ اس کو فرنٹ پیج پر چھاپ دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس ہائی کورٹ کے جج سے متعلق بات کی گئی جو بلاخوف وخطر کام کرتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسلسل یہ بات کی جارہی ہے کہ انہیں الیکشن سے پہلے نہ چھوڑیں، ہماراایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔ مہربانی کر کے ہمارا احتساب کیجئے لیکن ہمیں متنازعہ نہ بنایئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر میں اپنے ججز کے بارے میں پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ پروسیڈنگ شروع نہ کرتا۔ اس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو تحریری طور سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کروں گا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ سماعت پر دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرسٹر خالد جاوید خان سے کہا کہ وہ اپنی جگہ کوئی نمائندہ مقررکردیں جو آئندہ سماعت پر آکر پیش ہو۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس خبر کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ چھ جولائی کو احتساب عدالت کا فیصلہ آیا تھا اور16جولائی کو اپیل دائر کی گئی، میں خود اور جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹی پر تھے بلکہ ملک میں ہی موجود نہیں تھے، اس وقت جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ملک میں موجود تھے اور اس وقت ملزمان کے وکیل کون تھے خواجہ حارث احمد، امجد پرویز ایڈووکیٹ، عائشہ حامد اور بیرسٹر جہانگیر خان جدون ملزمان کے وکیل تھے، کیس31جولائی کو سماعت کے لئے مقرر کیا جس پر وکلاء نے اعتراض نہیں کیا، وکلاء جانتے تھے کہ کسی صورت اس دن سزامعطل نہیں ہوسکتی، عدالت نے پھر بھی 31جولائی کی جلد سماعت کی تاریخ دی۔عدالت نے میر شکیل الرحمان اور دیگر فریقین سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سب ریکارڈ نکالا۔عدالت کا کہنا تھا کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ رانا شمیم کا بیان حلفی جعلی ہے، کیونکہ رانا شمیم تین سال تک خا موش رہے اور انہیں اب اچانک یاد آگیا۔ عدالت نے مختصر سماعت کے بعد فریقین کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ افراد کو 26نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ ZS