پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی سب سے زیادہ ہے پاکستانیوں کی اکثریت کی رائے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سروے میں محکمہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ قرار
اسلام آباد( ویب نیوز)ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ملک گیر پرسیپشن سروے کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں مہنگائی اور قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ میڈیارپورٹس میںبتایا گیا ہے کہ نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2021 کے نتائج کے مطابق 92.9 فیصد پاکستانی موجودہ پی ٹی آئی حکومت (2018-2021) میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی حکومت( 2013 سے 2018 )میں یہ شرح 4.6 فیصد تھی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت (2008-2013) میں مہنگائی کی شرح 2.5 فیصد تھی۔اس کے علاوہ سروے میں شامل 85.9 فیصد لوگوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ان کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔جب مہنگائی اور بے روزگاری کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو 50.6 فیصد لوگوں نے حکومتی نااہلی، 23.3 فیصد نے کرپشن، 16.6 فیصد نے پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے اور 9.6 فیصد نے حکومتی معاملات میں سیاستدانوں کی بے جا مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔سروے کے جواب دہندگان کی اکثریت( 85.9 فیصد) کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت کی خود احتسابی غیر تسلی بخش ہے۔مزید یہ کہ ان میں سے 66.8 فیصد نے حکومت کی احتساب کی مہم کو جزوی اور نامکمل قرار دیا۔سروے کے مطابق 41.4 فیصد پاکستانیوں نے پولیس کو سب سے کرپٹ شعبہ قرار دیا۔عدلیہ کو 17.4 فیصد، اس کے بعد 10.3 فیصد لوگوں نے ٹھیکیداری یا ٹینڈرنگ کو کرپٹ شعبہ کہا، جبکہ کمزور احتساب، طاقتور لوگوں کی لالچ اور کم تنخواہوں کو کرپشن کی اہم وجوہات قرار دیا گیا۔سروے کے نتائج کے مطابق جن عوامی خدمات کے لیے لوگوں کو رشوت دینا پڑی ان کی فہرست میں سڑکوں کے ٹھیکے( 59.8 فیصد)، صفائی ستھرائی اور کچرا اٹھانا( 13.8 فیصد)، پانی تک رسائی( 13.3 فیصد) اور نکاسی آب کا نظام( 13.1 فیصد) کے ساتھ سرفہرست رہیں۔جب لوگوں سے ان اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا جن سے بدعنوانی کو کم کیا جاسکتا ہے تو 41 فیصد پاکستانیوں نے سخت سزاوں کا مطالبہ کیا، 34.6 فیصد نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بدعنوانی کے مقدمات کو تیز کرنے کے ذریعے سرکاری افسران کا احتساب کیا جائے، جبکہ 25.3 فیصد نے کہا کہ بدعنوانی میں سزا پانے والوں پر سرکاری عہدہ رکھنے پر مکمل پابندی عائد کرنے سے کرپشن کم ہو سکتی ہے۔آبادی کے ایک بڑے حصے( 81.4 فیصد)نے انکار کیا کہ وہ خوشی سے رشوت دیتے ہیں اور اسی طرح یہ ایک واضح تاثر تھا کہ عوامی خدمات کی فراہمی میں سستی یا تاخیری حربوں کے ذریعے عوام سے رشوت وصول کی جاتی ہے۔سروے میں مقامی حکومتوں کے بارے میں لوگوں کے تاثرات کو بھی دیکھا گیا، خاص طور پر کوویڈ 19 جیسے وبائی مرض اور اس سے نمٹنے کے لیے مرکز کے اقدامات کے سلسلے میں۔سروے میں شامل تقریبا 47.8 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ اگر بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندے موجود ہوتے تو وبائی امراض کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے حکومت کی مہمات کو مثر انداز میں شروع کیا جاسکتا تھا۔جواب دہندگان کے ایک بڑے حصے( 72.8 فیصد) نے یہ بھی محسوس کیا کہ مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پبلک سیکٹر میں نچلی سطح پر بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 89.1 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی وبائی امراض سے متعلق امدادی کوششوں کے دوران کسی سرکاری اہلکار کو رشوت نہیں دی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق سروے میں ملک کے ہر صوبے کے چار شہروں سے ایک ہزار 600 افراد سے جواب طلب کیے گئے۔رواں سال جنوری میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) میں پاکستان 180 ممالک میں سے 124ویں نمبر پر ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں چار درجے کمی ہے۔سی پی آئی ایک سالانہ انڈیکس ہے جو پبلک سیکٹر کی بدعنوانی کے تصورات کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے