ہم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی تردید بھی چھاپی ہے،انصار عباسی

 صحافی کی حدتک معاملہ توہین عدالت میں نہیں آتا، ریکارڈ میں کچھ ایسا نہیں جس سے ثابت ہو کہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے،عدالتی معاون فیصل صدیقی

 رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے جبکہ انصار عباسی کو پابند بنایا جائے کہ وہ ہر عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کریں،اٹارنی جنرل

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کا بیان حلفی چھاپنے کے حوالے سے توہین عدالت کیس میں ملزمان پر فرد جر م عائد کرنے کی کارروائی20جنوری تک مئوخر کردی۔ عدالت نے تمام فریقین کو سوچنے کا موقع دیتے ہوئے قراردیا ہے کہ کسی کا فیئرٹرائل کا حق صلب نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتسان رانا محمد شمیم کا بیان حلفی چھاپنے کے حوالے سے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت رانا محمد شمیم، صحافی انصار احمد عباسی اور اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کے بینچ سے متعلق بیانیہ تھا، یہ رائے دی جارہی ہے کہ ججز دبائو میں فیصلے کرتے ہیں ، اس قسم کی خبروں کی وجہ سے عوام کا اعتمادختم ہوتا جارہا ہے، اس بینچ سے زیادہ کوئی آزادی اظہار رائے کا حامی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نا سمجھی میں بھی چیزیں ہو جاتی ہیں، ہم آپ کی دیانتداری پر سوال نہیں کررہے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو احساس ہو کہ خبر کا اثر کیا ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے، کوشش کی کہ انصار عباسی کو احساس ہو جائے لیکن نہیں ہورہا، میر شکیل الرحمان عدالت میں آج کیوں پیش نہیں ہوئے، آج فرد جرم عائد ہونے کی کارروائی ہونا تھی۔ اس پر انصار عباسی نے وضاحت دی کہ میر شکیل الرحمان کی پوری فیملی کو کو کوروناہوا ہے، انہوں نے گھر میں خود کو قرنطینہ کر لیا اس لئے وہ پیش نہیں ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ خود تسلیم کررہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بیان حلفی میں جھوٹ لکھا ہو، اس بیان حلفی پر انکوائری کرنی ہے ضرور کرائیں، اس بیان حلفی کا مطلب ہے بینچ میں شامل ججز مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں، عام آدمی بیان حلفی پڑھ کر یہی کہے گا کہ ججز نے دبائو لیا، فرد جرم عائد کردیتے ہیں، چارج فریم ہونا ہی نہیں چاہئے، آپ اس عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے۔ دوران سماعت انصار عباسی نے کہا کہ ہم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی تردید بھی چھاپی ہے۔عدالت نے کہا کہ بیانیہ یہ ہے کہ ثاقب نثار نے کیس سے متعلق جج سے بات کی جو بینچ میں شامل ہی نہیں تھے،بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے یا میں تھا، وہ اپیلیں بعد میں میرے بینچ نے بھی سنیں،اس بیانیے کے مطابق ہم تینوں پر اثر انداز ہواجاسکتا تھا، جن کے نام خبر میں لکھے ہیں ان کے کیسز دودن بعد لگے تھے۔ انصار عباسی نے کہا کہ ہم نے افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے بھی بیان حلفی چھاپے تھے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا افتخار چوہدری کے خلاف بیان حلفی عدالتی کارروائی سے متعلق تھے؟اس پر رانا شمیم کے وکیل عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم عالمی اداروں کو کچھ کہنے سے نہیں روک سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے اپنے طے کردہ معیار پر عمل کیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو رانا شمیم بیان حلفی نہ دیتے تو کیا آپ خبر چھاپ دیتے۔ اس پر انصار عباسی نے کہا کہ میں بیان حلفی کے بغیر خبر نہیں چھاپتا۔ انصارعباسی نے کہا کہ ڈان اخبار کے ظفر عباس نے لکھا ہے کہ میں بھی بیان حلفی کو چھاپ دیتا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر وہ چھاپتے تو انہیں بھی توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتاجبکہ عدالت معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کی حدتک معاملہ توہین عدالت میں نہیں آتا، ریکارڈ میں کچھ ایسا نہیں جس سے ثابت ہو کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، صحافی کی جانب سے خبر شائع کرنے میں لاپرواہی کی گئی، لاپرواہی کبھی بھی توہین عدالت میں نہیں آتی۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لطیف آفریدی غصے سے دیکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عام آدمی کے بنیادی حقوق کے لئے دیا گیا فیصلہ میڈیا میں چلتا نہیں، کسی بڑے آدمی بات ہو تو وہ خبر بہت زیادہ چلتی ہے، عدالت کا کون سا ایسا فیصلہ ہے جس سے تاثر بھی ہو کہ وہ کمپرومائز ہوئے ہیں ، جب تک عوام کا عدالت پر اعتماد نہ ہو وہ عدالت نہیں آتے، عوام کاا عتماد خراب ہوتا ہے اس بات کو بھی سمجھیں۔ انصار عباسی نے کہا کہ ہم نے کسی کیس کے میرٹ پر بات نہیں کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل بیرسٹرخالد جاوید خان نے کہا کہ پہلے بھی کہا تھا کہ خبر میں میڈیا کا کردارثانو ی ہے، بڑے عرصہ سے ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے، بیانیہ بنانے والا عدالت کے سامنے موجود نہیں، جو بیانیہ بنایا جارہا ہے اس کو ان کا ادارہ پروموٹ کرتا ہے،اخبار کی ہیڈنگ تھی”راناشمیم کاانکشاف”۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عامر غوری یا انصار عباسی انہیں پروموٹ کررہے ہیں بلکہ ان کا ادارہ وہ ضرور اس بیانیے کو پروموٹ کررہا ہے، اس ادارے کو ضرور کہنا چاہئے کہ وہ سیاسی نوعیت کی ضرورخبریں دیں لیکن عدالت یا زیر التواء کیسز سے متعلق بات نہ کریں، اس بیانیے  سے عدلیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جو کہ نہیں پہنچنا چاہئے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے وہ وہاں پرآئیں اور سنیں ان کا بیانیہ پٹ کررہ جائے گا۔اٹارنی جنر ل نے کہا کہ انصار عباسی نے کہا بیان حلفی نہ ہوتا تو وہ اسے نہ چھاپتے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے جبکہ انصار عباسی کو پابند بنایا جائے کہ وہ ہر عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کریں تاکہ انہیں پتا چلے کہ آئندہ اس حوالے سے کیسے رپورٹنگ کرنی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ جج تک کوئی رسائی نہیں رکھتا۔