جماعتِ اسلامی و حکومتِ سندھ میں طے پانیوالا معاہدہ سامنے آگیا

سندھ حکومت 2013کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں صوبائی اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے روبہ عمل لائے گی

کراچی (ویب ڈیسک)

سندھ ترمیمی بلدیاتی قانون 2021 میں تبدیلی کے لیے جماعتِ اسلامی اور حکومت سندھ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات  منظر عام پر آگئی ہیں ۔اس معاہدے کے نتیجے میں جماعتِ اسلامی نے 29 روز سے سندھ اسمبلی پر جاری اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔جماعتِ اسلامی اور حکومتِ سندھ کے درمیان ہونے والے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور ترمیمی بل 2021 میں ترامیم کے معاہدے کے مسودے کے مطابق طویل مذاکرات کے بعد دونوں جانب سے متعدد امور پر اتفاقِ رائے ہو گیا جن کو سندھ حکومت 2013کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں صوبائی اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے روبہ عمل لائے گی، نیز جن امور پر رولز بنانے یا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ضرورت ہے وہ 2 ہفتوں میں سندھ حکومت سر انجام دے گی۔معاہدے کے مطابق صحت و تعلیم سے متعلق سہولتیں و اختیارات جو بلدیاتی حکومتوں سے ترمیمی بل کے ذریعے صوبائی حکومت میں لے لیے گئے تھے دوبارہ بلدیاتی حکومت کے سپرد کر دیئے جائیں گے اور اس سلسلے میں ایکٹ اور اس کے متعلقہ شیڈول سے حذف کیے گئے اندراجات بحال کر دیئے جائیں گے۔مئیر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ہوں گے۔بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے 30 دن کے اندر پی ایف سی کی تشکیل، اجلاس اور ایوارڈ کا اعلان کر دیا جائے گا، منتخب مئیر و چیئرمین کمیشن کے ممبر ہوں گے، نیز مقامی حکومتوں کے لیے ایوارڈ میں مندرجہ ذیل مالیاتی امور شامل کیے جائیں گے: ۔

آکٹرائے ضلع ٹیکس کے عوض جی ایس ٹی کا حصہ تاریخی حصے داری کی بنیاد پر جو 2000 -1999 میں طے کیا گیا تھا، اسی تناسب سے اب بھی دیا جائے گا۔ صوبائی حکومت جمع شدہ موٹر وہیکل ٹیکس میں مقامی حکومت کو حصہ دے گی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے یو سیز کو ماہانہ اور سالانہ اخراجات کے لیے فنڈز کی فراہمی آبادی کی بنیاد پر ہو گی۔ صوبے میں پبلک سیفٹی کمیشن تشکیل دیئے جائیں گے اور متعلقہ مئیر و چیئرمین اس کے ممبر ہوں گے۔ تعمیر و ترقی، پلاننگ، سہولتوں کی فراہمی سے متعلق تمام اداروں بشمول کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول وغیرہ کے نظام، ایڈمنسٹریشن میں میئر و چیئرمین کا فعال اور موثر کردار ہو گا۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت کے اختتام سے 90 دن قبل آئندہ انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا، اس کے لیے ایکٹ میں ضروری ترمیم لائی جائے گی۔سندھ حکومت فراہمی آب کے 650 ایم جی ڈی کے کے فور منصوبے کی فوری اور ایک ساتھ تکمیل کے لیے وفاقی حکومت پر اپنا مکمل اثر و رسوخ استعمال کرے گی۔حب کنال، کے بی نہر کی اپ گریڈیشن اور کراچی کے لیے 650 ایم جی ڈی اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے پر جلد از جلد کام مکمل کرے گی۔سندھ حکومت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی اور ان کے انتخابات کا فوری اہتمام کرے گی اور اس کے لیے ضروری قانون سازی کرے گی۔کراچی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لیے سندھ حکومت مقامی حکومت کی مدد کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کرے گی۔یہ بات بھی طے کی گئی کہ جماعتِ اسلامی کی جانب سے وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کو بھیجے گئے خط میں درج جن تجاویز پر اتفاق ہو گیا ہے ان پر عمل درآمد کے لیے اور جن پر حکومتِ سندھ کی جانب سے اتفاق نہیں کیا گیا ان کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکراتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے گی۔

اپوزیشن جماعتوں ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے اس معاہدے پر سوالات اٹھا دیے

 متنازع بلدیاتی قانون کی درستگی سندھ اسمبلی کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے،سرداررحیم،معاہدہ بالکل غلط ہے،وسیم اختر

سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بلدیاتی ترامیم کے معاہدے پر دیگر جماعتیں تشویش میں مبتلا ہو گئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بلدیاتی ترامیم کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے، اپوزیشن جماعتوں ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے اس معاہدے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔اس ضمن میں سردار عبدالرحیم نے کہا کہ متنازع بلدیاتی قانون کی درستگی سندھ اسمبلی کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے، متنازع بلدیاتی بل سندھ اسمبلی میں پیش ہوگا تو تمام سمجھوتوں کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم، سابق میئر وسیم اختر نے معاہدے کو بالکل غلط معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا معاہدے کے تحت ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، کے ڈی اے، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول میں میئر کا ایڈمنسٹریشن میں صرف ایک کردار ہوگا، یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔وسیم اختر نے کہا ان سارے محکموں کی سرپرستی میئر کے پاس ہونی چاہیے، نہ کہ میئر کا ایڈمنسٹریشن میں کردار ہونا چاہیے، میئر جب ان محکموں کی سربراہی کرے گا تب ہی مسائل حل ہوں گے، ورنہ تو کنٹرول سندھ حکومت اور وزیر بلدیات کے پاس ہی رہے گا، میئر ان اختیارات کے ساتھ کچھ نہیں کر سکے گا۔ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اس معاہدے کو سیاسی معاہدے کی بجائے سندھ حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کے ساتھ دھوکا دہی سمجھ رہے ہیں، سردار عبدالرحیم نے اس حوالے سے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کالا قانون سفید کیسے ہو گیا؟جی ڈی اے رہنما نے کہا کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی شقیں عوام کے سامنے لائی جائیں، دونوں جماعتوں کے مابین طے پانے والی شقوں پر عوام کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔سردار عبدالرحیم نے کہا کہ بلدیاتی قانون متنازع ہے، اس میں بنیادی چیزوں کے حل ہونے کی ضرورت ہے، مقامی حکومتوں کا با اختیار ہونا ضروری ہے، اس پر سے سندھ حکومت کا غیر آئینی تسلط ختم ہونا چاہیے۔