القاعدہ اور داعش دونوں سے منسلک شدت پسند افریقہ خاص طور پر مسائل میں گھرے ساحل میں کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں

عراق اور شام میں مضبوط دیہی علاقوں میں شورش کے طور پر داعش کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہے،ماہرین کی رپورٹ

نیویارک (ویب ڈیسک)

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہاہے کہ حال ہی میں اقتدار میں آنے والے طالبان کے ساتھ القاعدہ کے ماضی کے تعلقات افغانستان کو شدت پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دہشت گرد گروہوں کو وہاں حالیہ تاریخ میں کسی بھی وقت سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ کئی موضوعات کا احاطہ کرتی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ القاعدہ اور عسکریت پسند گروپ داعش(آئی ایس)دونوں سے منسلک شدت پسند افریقہ میں، خاص طور پر مسائل میں گھرے ساحل میں کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ عراق اور شام میں مضبوط دیہی علاقوں میں شورش کے طور پر داعش کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہے جہاں اس کی نام نہاد خلافت نے 2014سے 2017کے درمیان دونوں ممالک کے بڑے حصے پر حکومت کی، جب اسے عراقی افواج اور امریکی قیادت میں قائم اتحاد کے ہاتھوں شکست ہوئی۔رپورٹ میں ماہرین کے پینل نے جنوب مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا اور فلپائن کو وشن مقام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک نے داعش اور القاعدہ سے وابستہ دہشت گردی کو روکنے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کچھ امید ظاہر کی ہے کہ ان کی آپریشنل صلاحیت نمایاں طور پر کم ہوں۔القاعدہ اور داعش کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین کے پینل کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی رپورٹ نے افراتفری کے ساتھ امریکی اور نیٹو افواج کا 20 سال بعد 2021میں حتمی انخلا ء کے درمیان 15اگست کو طالبان کی اقتدار میں واپسی کو آخری چھ ماہ کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا ہے، داعش کو اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ(آئی ایس آئی ایل)بھی کہا جاتا ہے۔طالبان نے پہلی بار 1996سے 2001تک افغانستان پر حکومت کی تھی، جس کو 2001میں امریکا میں 9/11کے دہشت گردانہ حملوں کے ماسٹر مائنڈ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں معزول کر دیا گیا تھا۔فروری 2020کے ایک معاہدے کے تحت، جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کی شرائط کو واضح کیا گیا تھا، طالبان نے دہشت گردی سے لڑنے اور دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دینے سے انکار کا وعدہ کیا تھا۔تاہم ماہرین کے پینل کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کوئی ایسی علامات نہیں ہیں جن سے ظاہر ہو کہ طالبان نے ملک میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا، اس کے برعکس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ پہلے سے زیادہ آزاد ہیں، تاہم رکن ممالک نے افغانستان میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوں کی کسی بڑی نقل و حمل کی اطلاع نہیں دی ہے۔ماہرین نے اپنی رپورٹ میں نوٹ کیا ہے کہ القاعدہ نے اپنے ایک جاری بیان میں 31 اگست کو طالبان کو ان کی فتح پر مبارکباد دی تھی، لیکن اس کے بعد سے القاعدہ نے ایک حکمت عملی کے طور پر اپنی خاموشی برقرار رکھی ہے، القاعدہ کی یہ خاموشی ممکنہ طور پر طالبان کی بین الاقوامی قبولیت اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوششوں کو نقصان سے بچانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ماہرین کے پینل نے مزید کہا کہ القاعدہ، قیادت کے مسلسل ہونے والے نقصانات سے ہونے والی کمزوری پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے پاس اب بیرون ملک بڑے حملے کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے جو اس کا طویل مدتی ہدف ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنوری 2021 میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے زندہ ہونے کی اطلاع ملی تھی، لیکن رکن ممالک سمجھتے ہیں کہ ان کی صحت خراب ہے۔ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کی سیکیورٹی کو مربوط کرنے والے امین محمد الحق صام خان اگست کے آخر میں افغانستان میں اپنے گھر واپس لوٹے ہیں اور ایک نامعلوم ملک نے اطلاع دی ہے کہ اسامہ بن لادن کے بیٹے عبداللہ نے بھی اکتوبر میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے دورہ کیا تھا۔پینل کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ جہاں تک داعش کا تعلق ہے اس کا افغانستان میں محدود علاقے پر کنٹرول ہے، اس نے مربوط حملے کرنے کی مسلسل صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کی پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے، رپورٹ میں داعش کے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 27 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے پر پیچیدہ حملے کیے جس میں 180 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ماہرین کے پینل کے مطابق رکن ممالک کا کہنا ہے کہ کئی ہزار قیدیوں کی رہائی کے بعد افغانستان میں داعش کی افرادی قوت ایک اندازے کے مطابق 2ہزار سے بڑھ کر 4 ہزار کے قریب ہو گئی ہے، جبکہ ایک رکن ملک کے مطابق ان جنگجوں میں سے نصف غیر ملکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان، داعش کو اپنے لیے بنیادی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں جو افغانستان میں ایک وسیع تر علاقائی ایجنڈے کے ساتھ ہمسایہ وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے خطرہ بننے والی سب سے بڑی قوت بننا چاہتے ہیں۔ماہرین کی اس رپورٹ میں گزشتہ ہفتے شمال مغربی شام میں امریکی حملے میں ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کے نام سے مشہور داعش کے رہنما کی ہلاکت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی طرح داعش کی قیادت کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ماہرین نے داعش کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 2021کے دوسری ششماہی میں القریشی کی جانب سے خود کو ظاہر کرنے میں ناکامی اور 11 اکتوبر کو عراق کے اس اعلان کی طرف اشارہ کیا کہ اس نے سامی جاسم محمد الجبوری عرف حاجی حامد کی گرفتاری کا حوالہ دیا، جو داعش کے مالیاتی شعبے کا انچارج تھا اور اسے سب سے سینئر داعش کے رہنما کا نائب اور ممکنہ جانشین سمجھا جاتا تھا۔پینل کا مزید کہنا تھا کہ اپنے سابقہ گڑھ عراق اور شام میں بھی داعش، فورسز کی طرف سے مسلسل انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دبا کا مقابلہ کر رہی ہے، ماہرین کا داعش کے جنگجوئوں کی تعداد اندازہ لگاتے ہوئے کہنا تھا کہ داعش میں 6 ہزار سے 10 ہزار کے درمیان جنگجو موجود ہیں اور یہ حملے شروع کرنے کے لیے سیلز اور تربیت کاروں کو تشکیل دے رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش اور القاعدہ دونوں افریقہ میں پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، خاص طور پر ساحل کے خطے میں، جہاں انہوں نے اندرونی تقسیم اور دشمنیوں کے باوجود پیروکاروں کی تعداد اور وسائل پر قابو پانے کے لیے مقامی شکایات اور کمزور حکمرانی کا کامیابی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک 2021 کے دوسری ششماہی کے دوران افریقہ میں داعش اور القاعدہ سے وابستہ افراد کی کامیابی پر بہت فکر مند ہیں۔