ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ موثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی،چیف جسٹس اطہر من اللہ

 وزارت انسانی حقوق نے آئین کی دفعات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے

 بادی النظر میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ کی دفعہ 6 کی شق 3 آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے

وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ یہ آرٹیکل 19اور آرٹیکل 19اے سے متصادم نہیں

عدالت کی وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق کو نوٹس کا جواب جمع کرانے کی ہدایت ، کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوٹو گرا ور کیمرہ مین کو ‘صحافی’ کی تعریف میں شامل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ موثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ‘صحافی’ کی تعریف اور پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021کی شق نمبر 6کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی دائر درخواست پر سماعت کی۔سماعت میں جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کی جانب سے سینئر وکلا آفتاب عالم، عمر اعجاز گیلانی اور طارق سمور کے علاوہ سابق صدر پی ایف یو جے افضل بٹ و دیگر صحافی رہنما عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ کی دفعہ 6 کی شق 3 آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ یہ آرٹیکل 19اور آرٹیکل 19اے سے متصادم نہیں۔عدالت نے کہا کہ جو چیز غیر ضروری ہے اس کو آپ ہٹا بھی سکتے ہیں ضروری نہیں کورٹ اس میں مداخلت کرے، ساتھ ہی ہدایت کی کہ درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19اور 19اے کے تناظر میں اس معاملے کو دیکھیں۔حکم نامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں درخواست گزار کے جرنلسٹ کی تعریف سے متعلق خدشات درست نہیں، عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ فوٹو جرنلسٹس بھی جرنلسٹس کی تعریف میں آتے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضح ہے کہ کون صحافی ہے، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہے، ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ موثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔عدالت نے کہا کہ معلومات کے حق کی آزادی اور آزادی اظہار رائے صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں، جب تک تنقید نہیں ہوگی احتساب نہیں ہو سکتا، عوامی عہدہ رکھنے والے کا بہترین احتساب معلومات تک رسائی اور تنقید ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ جس طرح عدلیہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہے اسی طرح خبر دینے والے کو بھی کام کے دوران پولیس کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے پی ایف یو جے کا شکوہ بے جا نہیں ہے، اس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔عدالت نے کہا کہ جنرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کی دفعہ 6 میں لکھے الفاظ سے صحافیوں کے خلاف مقدمے کا لائسنس مل جائے گا، پھر تو صحافی کوئی خبر نہیں دے سکیں گے، پاکستان میں مقدمہ درج ہونے سے بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔عدالت نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ بل سے صحافیوں کو تحفظ حاصل ہوگا لیکن متعلقہ سیکشن کی زبان میں شدید ابہام ہے، شق نمبر 6 میں صحافیوں کو خبر دے کر پولیس کارروائی کی دھمکی محسوس ہو رہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں فوٹو گرافر، کیمرہ مین، پروڈیوسر، ایڈیٹرز صحافی کی تعریف میں شامل ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ بل میں ترامیم لائی جا رہی ہیں۔عدالت نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق کے حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آئین کی دفعہ 19اور -19اے پر مکمل عمل کیا جائے گا، عدالت کو بادی النظر میں بل کی شق 6 بنیادی حقوق کے خلاف نظر آ رہی ہے۔عدالت نے وزارت انسانی حقوق سے ایک ماہ میں کمنٹس طلب کرلیے اور کہا کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے کام کو سراہتے ہیں لیکن صحافیوں پر قابل دست اندازی پولیس قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، درخواست میں بنیادی خدشہ گڈ فیتھ میں صحافیوں کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے، دفعہ 6 کی شق 3 میں صحافیوں کے لیے ایک دھمکی کی نشاندہی کی گئی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ ممبر بل میں کچھ ترامیم تجویز کی گئیں ہیں، وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا ہے کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالے گی اور اگر ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی۔عدالت نے وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق کو نوٹس کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔