اسلام آباد  ( ویب ڈیسک)

سٹیٹ بنک آف پاکستان کی خود مختاری مستحسن اقدام ہے۔ حکومتی تسلط و مداخلت کا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ ہاؤسنگ فنانس پر شرح سود واجبی سطح پر رکھنے کیلئے سوچ متوازن رکھناہو گی۔ سٹیٹ بنک کے حوالے سے آئینی ترمیم اہم ضرورت تھی وزارت خزانہ اور ریاستی بنک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لینا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی ہماری خود مختاری میں مداخلت غیر ضروری ہے۔ ریاستی بنک کو مزید توانا بنانے کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بنک کے حوالے سے مزید ترامیم ہو سکتی ہیں تاکہ قیمتوں میں اعتدال، معاشی استحکام اور شرح نمو میں اضافہ سے پائیدار ترقی ممکن ہے۔ سٹیٹ بنک کے نئے کردار کے حوالے سے عوام کے تحفظات دور کرنے کیلئے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔مانیٹری پالیسی کو مؤثر بنانے کے لئے شفافیت ناگزیر ہے۔ افراط زر کے حوالے سے سخت اقدام اٹھانا ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا، سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر شمشاد اختر،سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضی سید، یو این ای ایس کیپ (UNESCAP) پاکستان کے ڈاکٹر حمزہ علی ملک اور پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام”سٹیٹ بنک کے نئے کردار کے حوالے سے تیاری“ پرآن لائن مذاکرے کے دوران کیا۔ سٹیٹ بنک کے نئے کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ گذشتہ ادوار میں حکومتوں کی سٹیٹ بنک کے معاملات میں مداخلت رہی ہے۔ بالخصوص مانیٹری پالیسی کے معاملے پر اور ماضی میں حکومتوں کی طرف سے براہِ راست مالی اعانت، قرضوں کی مد میں حصول درست عمل نہ تھا۔ ماضی کے ان تجربات اور اقدامات کی روشنی میں اس کی خود مختاری خوش آئندہ اقدام ہے۔ مالیات اور اس سے متعلقہ پالیسی کے حوالے سے آزاد فورم کے قیام کے اہداف کے حصول و مشترکہ حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے مزید کہا کہ ریاستی بنک اور وزارت خزانہ کے مابین تعلقات کے مؤثر ہونے سے مانیٹری پالیسی پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مگر اس پر چشم پوشی مایوسی کا سبب بن سکتی ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافہ باعثِ تشویش ہے جس سے ترقی میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ افراطِ زر پر قابو پانا مرکزی بنک کا اہم ہدف ہوتا ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے ہاؤسنگ فنانس پر شرح سود 3 فیصد سے 5 فیصد تک کرنے کو محنت کش اور پسماندہ طبقے کے لئے مایوس کن قرار دیا۔ اس سے ہاؤسنگ سیکٹر کی بھی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکتی۔ مزید ترقی کی رفتار متاثر ہونے کا امکان ہے۔مرکزی بنک کو متوازن حکمت عملی مرتب کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افراطِ زر پر قابو پانے کے لئے مرکزی بنک کی استدادِ کار میں اضافہ اور مؤثر تحقیقی صلاحیت میں اضافہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ مانیٹرنگ کا عمل مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہاکہ معاشی اعشاریوں کو بہتر کرنے اور مہنگائی کو جانچنے کے پیمانوں کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے۔ مانیٹر پالیسی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ماہانہ رپورٹ مرتب کرنے پر زور دیا۔ آن لائن مباحثے کے ابتدائیے میں سابق گورنر مرکزی بنک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے حوالے سے 1956ء کے قانون میں ترمیم وقت کی ضرورت تھی اور اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے تاکہ بنک ہولڈنگ کمپنی کے ڈھانچے میں بہتر ی اور جدت لائی جائے جس سے مالیاتی ادارے، انشورنس کمپنیز، اثاثہ جات کا انتظام کرنے والوں کو ضابطے کا پابند بنا یا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت خزانہ و مرکزی بنک کے مابین تعلقات کا دائرہ کار واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں کے کردارکاتعین کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے کردار کے حوالے سے کہا کہ آئی ایم ایف کی کسی بھی سطح پر مداخلت ملکی خود مختاری میں مداخلت ہے اور جبری احکامات سے گریز کرنا چاہئے۔ قیمتوں میں استحکام لائے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے اور پائیدار ترقی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آن لائن مذاکرے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے حوالے سے ترمیم کا بنیادی و مرکزی مقصدہے کہ اس کے ڈھانچے میں بہتری لائی جا سکے تاکہ کام کرنے میں خود مختاری اور شفافیت ممکن بنائی جا سکے اور عالمی رحجانات سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ بنک کے تین مرکزی اہداف میں قیمتوں اور معیشت میں استحکام اور شرح نمو میں اضافہ ہے۔ خود مختاری کے حوالے سے ترمیم کا خاصہ جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنانا اومعیشت کو ترقی دینا ہے۔ سٹیٹ بنک افراطِ زر کے حوالے سے مؤثر اور جامع حکمت عملی مرتب کر رہا ے جس سے سٹیٹ بنک کی کارکردگی کے حوالے سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ اس موقع پر یو این اسکیپ پاکستان کے ڈاکٹر حمزہ علی ملک نے کہاکہ سٹیٹ بنک کی خود مختار حیثیت کے حوالے سے بیانیہ پر مزید آگہی کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مزید گمراہی اس کی ساکھ کو متاثر کر سکتی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے مانیٹری پالیس کو جاندار بنانا ہو گا۔ شرح نمو، ترقی کے لئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ افراطِ زر کے حوالے سے سٹیٹ بنک کی طرف سے حد مقرر کرنا ہو گی جس کا ممکنہ دورانیہ 3 سے 5 سال تک ہو۔ مانیٹری پالیسی کو عام فہم بنانے کے لئے سٹیٹ بنک کو اہتمام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی و معاشی امور کے لئے مؤثر فورم اشد ضروری ہے تاکہ متعلقہ اداروں اور سٹیک ہولڈز کے مابین مؤثر رابطہ کاری ہو سکے جس سے پلاننگ کمشن اور دیگر وزارتیں استفادہ کر سکیں، ایسے فورم کی تشکیل ناگزیر ہے۔ مذاکرے کے منتظم ایس ڈی پی آئی کے محقق ڈاکٹرساجد امین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افراطِ زر کے حوالے سے توقعات اوپر سے نیچے کی طرف لانی چاہئے۔ سٹیٹ بنک کے نئے کردار کے حوالے سے عوام کے تحفظات و خدشات دور کئے جانے کے لیے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شفافیت کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے دائرہ کار واضح کیا جائے۔ تاکہ مانیٹری مالیسی کے نفاذ کو بہتر کیاجا سکے۔ سٹیٹ بنک افراطِ زر کے حوالے سے اہداف پورے کرنے کے لئے روائتی طریقوں کی بجائے ترقیاتی اہداف سے ہم آہنگ کرے۔ مرکزی بنک کی طرف سے اس کے دائرہ کار، کارگزاری کے حوالے سے آگہی انتہائی ضروری ہے تاکہ کارکردگی کو جانچنے کے جدید اسلوب استعمال کئے جا ئیں #