حکومت نے عوام کو تبدیلی کا جو منشور دیا تھا کوئی مثبت تبدیلی عوام کو نظر نہیں آئی، نجی ٹی وی کو انٹرویو

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ابھی تک اپوزیشن نے جماعت اسلامی سے تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے لئے رابطہ نہیں کیا۔ہم نے تجویز دی ہے کہ عدم اعتماد کے ساتھ ،ساتھ اپوزیشن اجتماعی استعفیٰ دے ،دے تاکہ عوام کو ایک فریش مینڈیٹ کا موقع ملے،اس لئے کہ حکومت تو نہیں چل رہی اور نظام تو بالکل اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ حکومت کو خود اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے عوام کو فریش مینڈیٹ کے لئے موقع دینا چاہئے۔موجودہ حکومت نا کام ہو گئی ہے اوراس حکومت نے اپنے ایک ہزار وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا ، اس حکومت نے عوام کو تبدیلی کا جو منشور دیا تھا کوئی مثبت تبدیلی عوام کو نظر نہیں آئی، منفی تبدیلی تو بہت آئی ہے۔ان خیالات کااظہار سراج الحق نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں باکل ایک ہیں، دونوں کے ماضی میں بھی کوئی فرق نہیں ،حال بھی ایک ہے ، پالیسیوں میں بھی کوئی فرق نہیں ،شہروںکے علاوہ یا کچھ افراد کے علاوہ باقی تو سو فیصد وہی نظام ہے جو گذشتہ ایک طویل عرصے سے ہماری قوم پر مسلط ہے،اس لئے گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں پی ٹی آئی نے وہی کچھ کیا جو ماضی کی حکومتوں نے کیا ہے، آئی ایم ایف سے قرضے وہ بھی لیتے رہے اس حکومت نے بھی لئے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ڈکٹیشن یہ حکومت بھی قبول کرتی کرتی ہے اورگذشتہ حکومتیں بھی قبول کرتی رہیں ، وی آئی پی کلچر اس حکومت کا بھی ہے اور اُس حکومت کا بھی ہے ، کرپشن پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی ہے اور گذشتہ حکومتوں میں بھی تھی ،امریکہ کی ایڈوائس پر چلنا اس حکومت میں بھی ہے اور اس حکومت میں بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر کازکے لئے بات کرنا اور کچھ نہ کرنا یہ حکومت بھی و ہی کر رہی ہے اور گذشتہ حکومتیں بھی یہی کرتی رہی ہیں، اس لئے ان لوگوں کی سیاست سے غریب آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے ،یہ صرف ایک کھیل تماشاہے اور عوام صرف تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔  انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک عرصے سے ہم یہی لوگ دیکھ رہے ہیں جس طرح وزیر خارجہ ہے ،پرویز مشرف کے دور میں بھی وزیر خارجہ تھے، وزیر خزانہ ہے وہ پچھلی حکومتوں میں بھی وزیر خزانہ تھے، آخر کون سی ایسی چیز ہے ، اگر اسد عمر پی ٹی آئی کا ہے تو بڑے بھائی زبیر عمر مسلم لیگ(ن) میں ہیں،بڑا بھائی اُدھر ہے ، چھوٹا بھائی ادھرہے،چچا اُدھر ہے ، بھتیجا ادھر ہے، ماموں اُدھر ہے اور بھانجا ادھر ہے،بڑی بہن اُدھر ہے اور چھوٹی بہن ادھر ہے، شوہر ایک پارٹی میں ہے اور خاتون دوسری پارٹی میں ہے لیکن گھر تو ایک ہے، گاڑیوں کے گیراج اور پراپرٹی تو ایک ہے۔ یہ شہزادوں، خانزادوں، نوابوں اوراصل میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلاموں کی سیاست ہے، اس سے پاکستان کے عام آدمی ، مزدور ، دہکان ، کاشتکار ،ڈرائیور اورعام پاکستانیوں کو کچھ نہیں مل رہا ہے، اس نے صرف ایک تماشا دیکھنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے غلامی کی سوچ کو بدلنا ہے، اب 74سال ہو گئے ہیں، ہم ایک آزاد شہری اور پاکستانی کے حیثیت سے سوچنا  چاہئے کہ اس نظام میں میرا کیا حصہ ہے ، کیا غریب آدمی کا کا م ووٹ دینا ہے،سپورٹ دینا ہے، زندہ باد کے نعرے لگانے ہیں اور لوگوں کو کندھوں پر بیٹھاکران کو اقتدار تک پہنچانا ہے اور جب ایک جاگیردار اورکرپٹ سرمایہ دار بوڑھا ہو جائے تو پھر ان کے شہزادے کے لئے ماحول تیار کرنا ہے۔ میں اپنی قوم سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس سیاست نے تمہارے ملک کے جغرافیہ کو بھی تباہ کیا، پاکستان دو لخت ہوا ،اس سیاست نے تمہاری معیشت کو بھی تباہ کیااور تمہارا نظریہ بھی ختم ہوا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اس ملک پر قائد اعظم کی رحلت بعد ایک حاص طبقے نے قبضہ کیا اور یہ وہی طبقہ ہے جو انگریزوں کے ساتھ کا م کرتے تھے ،میر جعفر اور میر صادق کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں،انہوں نے ان کے بوٹ بھی پالش کئے اور گھوڑے بھی مالش کئے،پھر ان کو بڑے القابات اور بڑے، بڑے رقبے اور جاگیر ملے، وہ دن اور آج کا دن وہی لوگ مسلط ہیں اور یہ سیاسی جونکیںہیں جو ہر جگہ موجود ہیں، انہوں نے میڈیا کو بھی قبضے میں لیا ہے ،بیوروکریسی کو بھی قبضے میں لیا ہے اور اسٹبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ ہے ، بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھی یہ اپنے آپ کو ایک مہرے کے طور پر پیش کرتے ہیںکہ ہمیں سپورٹ کر لے ہم آپ کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں، آپ کے آئیڈیاز، خیالات اور مفادات کا ہم تحفظ کر سکتے ہیں ایک لحاظ سے جغرافیہ توآزاد ہو لیکن نظام آزاد نہیں ہو ا۔ انہوں نے کہا کہ ملک تو اسلامی فلاحی پاکستان کے لئے بنا تھا لیکن 74سال ہو گئے اسلامی نظام تو ہم نے ایک دن کے لئے بھی اس ملک میں نہیں دیکھا ،عدالتوں میں اسلام کا نظام ، سیاست میں اسلام کا نظام، معیشت میں اسلام کا نظام یہی یہودی سود کا نظام انگریز کے دورمیں بھی تھا اور آج بھی ہے، جس کی وجہ سے ہر پاکستانی دو لاکھ 35 ہزار روپے کا مقروض بن گیا ہے ۔ سراج الحق نے کہا کہ ہمیں اسلامی نظام ،یہ اللہ کا نظام ہے اور رحمت اللعالمین ۖ کی شرعیت ہے، اس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے حقوق کی حفاظت ہے ،اس میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی ضمانت ہے۔صدارتی نظام گپ شپ ہے ،یہ صرف وقت کا ضیاع ہے اور ڈرائنگ روم کی سیاست اور بحث کا ایک موضوع ہے، جب کوئی اور کا م نہ ہو توپھر لوگ اس پر بات کرتے ہیں لیکن تین بار ہم نے پاکستان میں صدارتی نظام دیکھا ہے ، ایوب خان کے دور میں جس کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں ہم نے صدارتی نظام دیکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو اس وقت آئین  ہے اس پر پوری قوم کااجماع ہے ،جمہور کا اس پرتفا ق ہے، اس کو اگر چھیڑا گیا تو پھر کون ہو گا جواس قوم کو کسی دستاویزپر متفق کرے گا، اس آئین میں بہت ساری ایسی چیزیں موجود ہیں ،اگر ہم نے اس دستاویز کو روح ،جذبہ اور سپرٹ کے ساتھ نافذ کیا تو ہم ایک اسلامی فلاحی پاکستان اور ایک جمہوری اسلامی پاکستان بنا سکتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ اس آئین کی ان دفعات پر عمل ہوتا ہے جہاں حکمرانوںکے مفادات کی بات ہوتی ہیں اور جہاں غریب کے مفادات کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہاں لوگ آئین کو بھی نہیں جانتے اور اس کی دفعات کو بھی نہیں جانتے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نا کام ہو گئی اوراس حکومت نے اپنے ایک ہزار وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا ، اس حکومت نے عوام کو تبدیلی کا جو منشور دیا تھا کوئی مثبت تبدیلی عوام کو نظر نہیں آئی، منفی تبدیلی تو بہت آئی ہے،مثلاً غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا، یہ تبدیلی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی آئی ، یہ تبدیلی ہے کہ ڈالر کو پر ملے ہیں اورہر روزاس کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈپریشن میں اضافہ ہوااور70لاکھ نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے نشہ میں مبتلا ہو گئے۔ عدم اعتماد کی ابھی تک کوئی کلیئر شکل تو نہیں بنی، پیپلز پارٹی کے اپنے مفادات ہیں، سندھ میں ان کی حکومت ، پیپلزپارٹی کبھی بھی یہ نہیں چاہتی ہے کہ کوئی ایسا سسٹم ہو جائے کہ جس کے نتیجہ میں سندھ میں ان کی حکومت کو نقصان پہنچے، مسلم لیگ اورباقی اتحادیوںکے اپنے مفادات ہیں، خود اپوزیشن بھی ابھی تک یکسو نہیں ،البتہ ہم نے تجویز دی ہے کہ عدم اعتماد کے ساتھ ،ساتھ اپوزیشن اجتماعی استعفیٰ دے ،دے تاکہ عوام کو ایک فریش مینڈیٹ کا موقع ملے۔ اگر عدم اعتماد ہو جائے اور پھر مختلف دھڑے مل کر ایک ایسی حکومت بناتے ہیں جو چلنے کی نہ ہو ،جس کا کوئی والی وارث نہ ہو تواس سے اچھا ہے کہ عوام کو ایک نئے مینڈیٹ کے لئے ایک چوائس دی جائے۔ ابھی تک اپوزیشن نے جماعت اسلامی سے تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے لئے رابطہ نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں کہ صرف عدم اعتماد نہیں بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اجتماعی استعفے بھی ہوں تاکہ عوام کو ایک فریش مینڈیٹ کا موقع مل جائے، اس لئے کہ حکومت تو نہیں چل رہی اور نظام تو بالکل اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس ایک متبادل تعلیمی اور معاشی نظام کا منصوبہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو ایک موقع دیا جائے اور عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تاکہ ہم اس نظام کو بھی تبدیل کریں، پھر حکومت جس کی بھی ہو ، نظام ٹھیک چلے گا۔