پاکستان اسلامی ممالک کیساتھ شراکت داری اور تعاون کا فروغ چاہتا ہے: دفترخارجہ

اسلام آباد(ویب  نیوز)اسلام آباد میں منگل سے شروع ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے دو روزہ اڑتالیسویں اجلاس کیلئے انتظامی اور سکیورٹی کے نقائص سے پاک انتظامات کئے گئے ہیں۔ یہ بات دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس کا موضوع ہے اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے شراکت داری، جو امت میں اتحاد کوفروغ دینے، تمام مسلمانوں کیلئے انصاف کے نصب العین کو آگے بڑھانے اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے لئے پائیدار ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے ہمارے عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان افتتاحی نشست میں اہم خطاب کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے ساتھ شراکت داری اور تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے جس کا مقصد امت کے اجتماعی مفادات کافروغ اور مسلمانوں کو درپیش متعدد مسائل حل کرنا ہے۔دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں کو یاد دلایا کہ انہیں ملک کے سیاست دانوں سے ملاقاتوں کے دوران بعض سفارتی اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عاصم افتخار نے کہا کہ ملک کے سیاستدانوں سے ملاقاتوں سے قبل کچھ سفارتی اصول ہیں جنہیں پورا کرنا غیر ملکی سفارت کاروں کو ضروری ہے۔ترجمان کا یہ بیان وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں جاری سیاسی تعطل کے درمیان اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے ساتھ بعض مغربی ممالک کے سفارت کاروں کی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ترجمان نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ہاں، سفارتی اصول ہیں جو ہم غیر ملکی سفارت کاروں کو بتاتے رہے ہیں جبکہ انہوں نے سیاسی رہنماوں کے مختلف بیانات پر تبصرہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ 2022 کو میاں چنوں کے قریب زمین پر گرنے والے بھارتی سپرسونک میزائل کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود کی بلا اشتعال اور واضح خلاف ورزی کے سنگین واقعے نے شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچایا،انہوں نے کہا کہ میزائل کی پرواز کا راستہ بھی بہت سے لوگوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، مزید کہا کہ ہندوستانی فریق نے ابھی تک پاکستان کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔تاہم اس واقعے کی سنگین نوعیت سیکیورٹی پروٹوکول اور جوہری ماحول میں میزائلوں کے حادثاتی یا غیر مجاز لانچ کے خلاف تکنیکی تحفظات کے حوالے سے کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتی ہے۔اس طرح کے سنگین معاملے کو ہندوستانی حکام کی جانب سے پیش کردہ سادہ وضاحتوں کے ساتھ حل نہیں کیا جا سکتا