پیکا آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے حکومتی بدنیتی کا تاثر ملتا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ

 ایگزیکٹیو کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

 پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے اس دوران ہی رکھا جانا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل

 آئین پابند بناتا ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا، چیف جسٹس

ایگزیکٹیو آئین میں دی گئی ذمہ داری پوری نہ کرکے کیسے پارلیمنٹ کو نظر انداز کر سکتا ہے؟

 کیا ایگزیکٹیوپارلیمنٹ کو آرڈیننس منظور یا مسترد کرنے کے اختیار سے روک سکتا ہے؟

سیکشن 20 میں گرفتاری کو کیسے Justify کرتے ہیں ؟ کیوں نہ عدالت سیکشن 20 کو کالعدم قرار دے ؟ اس پر بتائیں،ریمارکس

عدالت نے حتمی دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس د یئے ہیں کہ پیکا آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے تاثر ملتا ہے حکومتی بدنیتی شامل ہے۔اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے دلائل دیئے کہ یہ آرڈیننس 18 کو جاری ہوا آفیشل گزٹ میں 19 فروری کو آیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ایگزیکٹیو کا اختیار نہیں کہ ان کو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھے ، اس طرح تو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھنا ایگزیکٹیوکی بدنیتی ثابت کرتا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے اس دوران ہی رکھا جانا ہے، جب تک رولز موجود ہیں تو ایگزیکٹیونے انہیں ہی اختیار کرنا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرڈیننس ایگزیکٹیونے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جہاں اکثریت ہو صرف وہاں پیش کردیں، ایگزیکٹیو اگر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو اس کے بھی اثرات ہیں، اس آرڈیننس کو کب اور کس ہائوس کے سامنے پیش کیا گیا ؟ سینیٹ چیئرمین کی رولنگ ہے جب بھی آرڈیننس جاری ہو گا پارلیمنٹ اور سینیٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اگر ایگزیکٹیو جان بوجھ کر آرڈیننس دونوں ہائوسز کے سامنے نہیں رکھتا تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ایگزیکٹیو کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرے، ایگزیکٹیو آئین میں دی گئی ذمہ داری پوری نہ کرکے کیسے پارلیمنٹ کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے یہ تاثر مل رہا ہے ایگزیکٹو کی بدنیتی شامل ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کسی بھی وقت آرڈیننس کو مسترد کر سکتے ہیں، آئین پابند بناتا ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا، اگرآرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوتا تو کیوں نہ عدالت ایگزیکٹیوکی بدنیتی قرار دے، ایگزیکٹیو یہ نہیں کر سکتی کہ جس ایوان میں اکثریت ہو وہاں پیش کر دیں، اگر ایگزیکٹیونے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی تو اسکے نتائج کیا ہونگے، کیا ایگزیکٹیوپارلیمنٹ کو آرڈیننس منظور یا مسترد کرنے کے اختیار سے روک سکتا ہے؟ سیکشن 20 میں گرفتاری کو کیسے Justify کرتے ہیں ؟ کیوں نہ عدالت سیکشن 20 کو کالعدم قرار دے ؟ اس پر بتائیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کے سامنے ایک کیس ہے جہاں صحافی نے ایک کتاب کا حوالہ دیا، ایک کتاب سے تاریخی حوالہ صحافی نے دیا تو اس پر سیکشن 20 کیسے لگے گا؟ اس سیکشن کو کالعدم قرار دینے کے لیے ایف آئی اے نے خود ہی ایک کیس بنادیا ، محسن بیگ کو بھی تو اسی طرح ہی گرفتار کرنے چاہا رہے تھے ؟ آپ سے اتنا کہا ہے کہ نہ شکایت کنندہ کو شرمندہ کریں نہ خود شرمندہ ہوں، شکایت کنندہ (مراد سعید)اسلام آباد میں تھا محسن بیگ کے خلاف شکایت لاہور کیسے کی ؟ کس طرح اتنی جلدی شکایت بھیجی؟ ڈاک کی رسید پیش کریں جس کے ذریعے شکایت پہنچی۔عدالت نے قرار دیا کہ اصل ایف آئی اے عوام کی خدمت لیے ہے جو پبلک آفس ہولڈرز کے کام جاری رکھے ہوئے ہے، اختلاف رائے، تنقیدی آوازیں رکھنے والے اور صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کا ٹول نہیں، ہماری سوسائٹی کی اقدار خراب ہو گئی ہیں تو کیا اب ساری سوسائٹی کو اندر کردیں، کوئی سچی گواہی نہیں دیتا تو کیا پراسیکوٹر کو اجازت دے دی جائے وہ خود ہی دے لے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو بدلتے سیاسی حالات کے ساتھ جوڑ دیا۔ قاسم ودود نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پیکا آرڈیننس کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے، ہو سکتا ہے کہ حکومت یہ ترمیمی آرڈیننس واپس لے لے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت تو اس کیس کو پس پشت نہیں ڈال سکتی ناں۔ ہائی کورٹ نے پیر تک حتمی دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔