قومی قیادت کو اعتماد میں لینے اور ایک قومی چارٹر کے لیے ڈائیلاگ کرنے کی ضرورت ہے سراج الحق

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اصلاحات اور اقدامات کو یقینی بنائے

لاہور (ویب  نیوز)

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ نومنتخب وزیراعظم کو حلف برداری کے موقع پر پڑھی جانے والی قرآنی آیات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بادشاہی دیتا ہے اور بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔  منصورہ سے جاری ایک بیان میں  سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حلف میں انھوں نے ایمان اور اس کے تقاضوں کو دہرایا ہے اور اسلامی نظریہ اور دستور پاکستان کی پاسداری کا عہد کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت، خودمختاری ،اور استحکام کا وعدہ کیا ہے۔ درحقیقت حلف کا ایک ایک لفظ ان کی کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ فراہم کر رہا ہے۔ ملک کا سربراہ ہوتے ہوئے ان کی کارکردگی آخرت میں ان کے لیے میزان بنے گی۔ پولرلائزیشن کی وجہ سے ملک شدید بحرانی کیفیت میں ہے اور ایسے میں قومی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں۔ موجودہ صور تحال میں کسی طویل المیعاد قومی ایجنڈے پر عمل کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو سکے گا۔حکومت کے لیے دو ہدف ہیں، ایک طرف اسے قوم میں تفریق کو کم کرنا اور دوسری جانب وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کی بجائے صاحب کردار لوگوں پر مشتمل مختصر کابینہ بنا کر کچھ ٹھوس اقدامات کی بنیاد ڈالناہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اصلاحات اور اقدامات کو یقینی بنائے۔ حکومت لوکل گورنمنٹ کے نظام کا خوش دلی کے ساتھ قیام عمل میں لائے اورصوبوں کو اس جانب متوجہ کرے۔ جمہوری عمل کے تسلسل، نظام حکومت کی نچلی سطح پر منتقلی ، معاشرے کی سیاسی تربیت کے لیے بلدیاتی اداروں کا قیام اور شفاف الیکشن اہم ترین میدان ہیں۔حکمرانوں کے پاس اس وقت مالیاتی سپیس نہیں، ایسے میں طرزحکمرانی میں سادگی علامتی نہیں، بلکہ حقیقی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب سلامتی اور خودمختاری کے معاملات اور عالمی اداروں سے مذاکرات کے مسائل ہیں، قومی قیادت کو ان حوالوں سے اعتماد میں لینے اور ایک قومی چارٹر کے لیے ڈائیلاگ کرنے کی ضرورت ہے۔سراج الحق نے کہا کہ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حصہ ہیں، لیکن جمہوریت سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام بھی ہے اور یہ ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ الزام تراشی اور سابقہ حکومت کی بری کارکردگی کا رونا رونے کی بجائے موجودہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی اور اس میں اہم ترین کام قانون کی بالادستی کا قیام اور دستور اور اداروں کا احترام ہے۔میرٹ پر تقرریاں اور احتساب کے عمل کو شفاف اور بامعانی بنا کر معاشرے کو درست سمت میں رواں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا قیام بھی انتخابی اصلاحات کا ایک اہم عنوان ہونا چاہیے، اگرچہ یہ وہ معاملہ ہے جس میں حکمران جماعت اور اس کے اتحادی خود کوئی مثالی نمونہ پیش نہیں کر سکتے تاہم اس جانب پیش رفت وقت اور وزیراعظم کے حلف کا تقاضا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور عوام کو ریلیف کے حوالے سے فوری اقدامات کیے جانے چاہییں۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے چھٹکارے، سودی نظام معیشت کے خاتمے کے مقاصد کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ ان دونوں امور پر پیش رفت وزیراعظم کے دعوئوں کا امتحان ہو گا۔امیر جماعت نے کہا کہ ملکی سیاست میں الیکٹیبلز کے رول کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب مڈل کلاس اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع ملنے چاہییں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں وڈیروں، جاگیرداروں اورسرمایہ داروں نے گہرے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ عام آدمی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ حکمران اشرافیہ سالہاسال سے غریبوں کی گردنوں پر سوار ملکی وسائل کا کھلواڑ کر رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انتخابی اصلاحات میں دھونس دھاندلی اور پیسے کے کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتیں آپس میں مل کر کردار ادا کریں۔ ہمیں آنے والی نسلوں کو ایک پرامن، جمہوری، اسلامی اور فلاحی پاکستان دینا ہے۔ اگر ملک میں اسی طرح کا نظام چلتا رہا، تو حالات سدھرنے کی بجائے مزید خراب ہوں گے۔ جماعت اسلامی گزشتہ سات دہائیوں سے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔مضبوط اسلامی اور خوشحالی پاکستان کے لیے قوم ہمارا ساتھ دے۔