حکومت کے خلاف منصوبے کا گزشتہ سال جولائی میں معلوم ہوگیا تھا، عمران خان

ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چلانا چاہتے تھے

 اسلام آباد میں ‘حقیقی آزادی مارچ’ کی کال دوں گا تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے

جہا نگیر ترین اور علیم خان کا پاور میں آنے کا وہ مقصد نہیں تھا جو میرا تھا

اگلی بار پہلے سے پلاننگ کرکے آئیں گے، معلوم ہوگا کہ کرنا کیا ہے اور اہم عہدوں پر کسے بٹھانا ہے

سابق وزیراعظم عمران خان  کی سوشل میڈیا پر پوڈ کاسٹ میں گفتگو

اسلام آباد (ویب نیوز)

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے گزشتہ سال جولائی میں معلوم ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ(ن) والوں نے ہماری حکومت گرانے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا ہے، یہ جو انہوں نے ابھی کیا ہے یہ تو بہت پہلے سے منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے،ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چلانا چاہتے تھے ، اسلام آباد میں ‘حقیقی آزادی مارچ’ کی کال دوں گا تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے،۔جہا نگیر ترین اور علیم خان کا پاور میں آنے کا وہ مقصد نہیں تھا جو میرا تھااگلی بار پہلے سے پلاننگ کرکے آئیں گے، معلوم ہوگا کہ کرنا کیا ہے اور اہم عہدوں پر کسے بٹھانا ہے،سابق وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر میرے ملے جلے تاثرات ہیں، باہر سے سازش کی گئی اور اس بیرونی سازش کو کامیاب کرنے کے لیے میر جعفر اور میر صادق نے ساتھ دیا، سب نے مل کر ایک منتخب حکومت کو گرایا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چلانا چاہتے تھے، آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب امریکا مخالف ہونا نہیں ہے، میں تو بھارت مخالف بھی نہیں ہوں، میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی متعصبانہ پالیسی کے خلاف ہوں، لیکن بھارت میں ہر قسم کی سوچ والے لوگ ہیں اور ان سے میری دوستیاں بھی رہی ہیں، امریکا بھی ایسا ہی ہے، ٹرمپ انتظامیہ سے میرے بہت اچھے تعلقات رہے، لیکن یہ سب اس لیے کیا گیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات بھی رہیں اور ہمارے لوگوں کے مفادات پر سمجھوتہ بھی نہ ہو۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم روس کا دورہ منسوخ کریں، روس کے ساتھ تجارت بھی نہ کریں، چین کے ساتھ اپنے روابط محدود کریں، افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے بیسز بھی مانگ رہے تھے، اس لیے انہیں یہ لگا کہ میرے ہوتے ہوئے وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہیں کر سکیں گے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ انہوں نے ایران کے سابق وزیراعظم مصدق کی حکومت کو بھی اسی طرح گرایا، لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ میں نے کبھی پاکسانی قوم کو اس طرح اکھٹے ہوتے نہیں دیکھا، پہلی دفعہ وزیراعظم کے جانے پر مٹھائیں نہیں بانٹی گئیں بلکہ قوم سڑکوں پر نکلی، ریکارڈ جلسے ہوئے، لوگوں کو مداخلت کے ذریعے حکومت گرائے جانے سے زیادہ غصہ کرپٹ لوگوں کو مسلط کیے جانے پر ہے، اپنے آپ کو بیچنے والے لوگوں کے خلاف ابھی تک عدالتوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے سوشل میڈیا پر پورا کنڑول کرلیا ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں میں بڑا شعور آرہا ہے، میرا 26 سالہ تجربہ کہتا ہے کہ جب میں اسلام آباد میں ‘حقیقی آزادی مارچ’ کی کال دوں گا تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔جہا نگیر ترین اور علیم خان سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے لیے ان دونوں کا بڑا کردار تھا، یہ دونوں 2011 کے جلسے کے بعد پارٹی میں آئے تھے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کا پاور میں آنے کا وہ مقصد نہیں تھا جو میرا تھا اسی لیے آج وہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف میں نے آواز بلند کی۔انہوں نے کہا کہ علیم خان مجھ سے توقع کرتے تھے کہ میں ان کی زمین لیگل کرا دوں، علیم خان راوی پر 300 ایکڑ زمین خرید کر لیگل کرانا چاہتے تھے، وہاں سے علیم خان اور میرے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں، ان کے کیسز نیب میں بھی تھے، پنڈورا پیپرز میں ان کا نام بھی آگیا، میرا خیال ہے کہ ان کو مجھ سے امید تھی کہ ہم حکومت میں آکر وہی کریں جو نواز شریف اور زرداری کرتے آئے ہیں۔جہانگیر ترین سے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ چینی بحران تھا جس پر کمیشن بھی بنایا، جہانگیر ترین ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے جو ملک کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں، شوگر مافیا پر انکوائری بٹھائی تو جہانگیر ترین سے اختلافات ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ اب ان شا اللہ میں پارٹی ٹکٹ دینے سے پہلے امیدوار سے یہ حلف لوں گا کہ اگر آپ بزنس کرنا چاہتے ہیں تو پاور میں نہ آئیں، اگر آپ پاور میں آتے ہیں تو مجھ سے یہ امید نہ رکھیے گا کہ میں آپ کے غیرقانونی کاموں کو جائز کروادوں گا۔عمران خان نے کہا کہ ایف آئی اے نے شہباز شریف کے نوکروں کے نام پر 16 ارب روپے پکڑا لیکن نیب اور عدلیہ آزاد ہے اس لیے ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے اور اسی لیے ہم اپنے ساڑھے 3 سال کی حکومت میں اسے سزا نہ دلواسکے، کبھی اس کی کمر میں درد ہوتا تو کبھی بنچ ٹوٹ جاتا، ہمارا نظام انصاف اسے پکڑتا ہی نہ تھا۔انہوں نے کہا کہ نیب میں 95 فیصد کیسز ہماری حکومت سے پہلے کے ہیں لیکن ساڑھے 3 برسوں میں وہ انہیں پکڑ ہی نہیں سکے، اداروں میں مجرم کو پکڑنے کی صلاحیت اور خواہش ہی نہیں ہے، اداروں میں کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے لوگ بیٹھے ہیں، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اداروں پر عوام کا دبا وآئے کہ ان مجرموں کو پکڑیں، اب انہیں این آر او 2 مل گیا۔انہوں نے کہا کہ جب آپ بہتر اکثریت کے ساتھ حکومت میں آتے ہیں تو آپ قانون تبدیل کر سکتے ہیں، میں نے ساڑھے 3 برسوں میں یہ سیکھا ہے کہ جب تک مجھے صحیح معنوں میں بھاری اکثریت نہیں ملے گی میں اقتدار میں آنا ہی نہیں چاہتا، ہمارے حکومت میں ہاتھ بندھے تھے، ہم سینیٹ میں قانون سازی ہی نہیں کرپاتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سیمنٹ، شوگر، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کارٹلز بنے تھے، 8 مسابقتی اداروں پر 11 سال سے 800 اسٹے آرڈرز تھے، 250 ارب روپے پھنسے تھے، اب باری ملے تو اکثریت سے ملے تاکہ مافیا کے خلاف کارروائی کرسکوں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن ہار بھی جائیں ان کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو ذاتی مفاد کے لیے سیاست میں آتے ہیں، ہمارا سسٹم ایسا بنا ہوا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے چلتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کا بیٹا پیسے دیتے پکڑا گیا لیکن اس کو چھوڑ دیا گیا، یہ سب چیزیں ختم ہوں گی جب آپ کے پاس بھاری اکثریت ہو۔اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ جنرل فیض کے اوپر بدمزگی شروع ہوئی ہے اور عمران خان جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتا ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ اپنا آرمی چیف لے کر آوں، میں فوج کے ادارے کو مضبوط کرنا چاہتا تھا، میں چاہتا تھا کہ پولیس کا ادارہ مضبوط ہو، میں عدلیہ کو مضبوط دیکھنا چاہتا تھا، میں نے کبھی فوج یا عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ فوج کو اپنے کنٹرول میں کرکے پنجاب پولیس بنانا چاہتا تھا، میرا فوج سے کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا کیونکہ میں نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی، نہ میں نے کبھی سوچا کہ اپنا آرمی چیف لاوں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرا صرف ایک یہ مسئلہ تھا کہ گزشتہ سال گرمیوں میں مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ تھا، مجھے ڈر تھا کہ جب امریکی جائیں گے تو اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو اس کے اثرات پاکستان کو پہنچنے تھے، اثرات پھر بھی ہوئے، ہمارے کتنے فوجی شہید ہوئے جب سے افغانستان آزاد ہوا ہے، میں چاہتا تھا کہ جو سردیوں میں ہمارا سب سے مشکل وقت ہے اس دوران ہمارے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کو ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ مجھے گزشتہ سال جولائی سے معلوم ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) والوں نے ہماری حکومت گرانے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا ہے، یہ جو انہوں نے ابھی کیا ہے یہ تو بہت پہلے سے منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارا انٹیلیجنس چیف تبدیل ہو جب تک یہ سردیاں نہ گزر جائیں کیونکہ انٹیلی جنس چیف حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب سب سے مشکل وقت آتا ہے اس وقت آپ اپنا انٹیلی جنس چیف تبدیل نہیں کرتے، مگر تاثر یہ دیا جاتا رہا کہ میں جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتا تھا، میرے ذہن میں ایسا کبھی نہیں تھا۔عمران خان نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی نظام لے آئیں اور اس پر شریف اور زرداری کو بٹھا دیں تو وہ نظام کرپٹ ہوجائے گا، آپ کسی طرح نواز شریف کو برطانیہ کا وزیراعظم بنادیں تو 10 سال میں برطانیہ مقروض ہوجائے گا اور پاکستان سے قرضہ مانگے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں، اللہ نے کسی کو نیوٹرل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی، آپ حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا باطل کے ساتھ کھڑے ہیں، حق اور باطل کی جنگ میں آپ نیوٹرل ہوجائیں اس کا مطلب آپ باطل کا ساتھ دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن کمشنر سے زیادہ متعصب آدمی پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا، آئین میں لکھا ہے کہ حکومت جانے کے بعد 3 مہینے میں لازمی الیکشن کروانے ہیں، یہ کس منہ سے کہہ رہا تھا کہ 7 ماہ سے پہلے الیکشن نہیں کروا سکتے۔عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب لگائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم امید کررہے تھے کہ شاہ محمود قریشی الیکشن جیتیں گے اور انہیں ہم وزیراعلی پنجاب بنادیں گے لیکن وہ الیکشن ہار گئے، دوسری چوائس ہمارے پاس علیم خان تھے لیکن ان پر نیب میں کرپشن کیس ہوگیا، اس لیے میں نے عثمان بزدار کا انتخاب کیا کیونکہ وہ مکمل طور پر وفادار تھے، میں نے جب بھی ان کو تبدیل کرنے کے لیے کہنا تھا تو وہ تیار ہوتے اور ایسا ہوا بھی۔انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کا تعلق ڈی جی خان کے غریب ترین علاقے سے ہے، وہ جانتے ہیں کہ عام آمی مشکلات میں کیسے گزارا کرتا ہے، ان کے دور میں ہیلتھ کارڈ جیسے سوشل پروٹیکشن پروگرامز آئے۔عمران خان نے گذشتہ حکومت میں آنے والے چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تبدیلیاں حکومت میں آتے ہی کر لینی چاہیے تھیں کیونکہ بعد میں وہ بہت مشکل ہو جاتی ہیں، حکومت میں آنے کے بعد پہلے سے پتا ہونا چاہیے کہ اہم عہدوں پر کس نے آکر بیٹھنا ہے، نیب اور عدلیہ تو ہمارے ہاتھ میں نہیں تھی لیکن باقی اداروں کی بھی آخری سال میں سمجھ آئی، اگلی بار پہلے سے پلاننگ کرکے آئیں گے، معلوم ہوگا کہ کرنا کیا ہے اور اہم عہدوں پر کسے بٹھانا ہے،عمران خان  نے کہا کہ مجھے ہٹانے پر انہیں توقع نہیں تھی عوام کا اتنا شدید ردعمل آئے گا، اداروں کے اندر لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہوگئے، اس وقت اداروں کی فیملیز ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب تک میڈیا، ٹی وی ، فلموں کو اپنی ثقافت و دین سے ہم آہنگ نہیں کریں گے، ہم بالی ووڈ ہالی ووڈ میں پھنسے رہیں گے، بالی ووڈ ہالی ووڈ نے خود ان کے اپنے کلچر کو تباہ کردیا، خاندانی نظام ٹوٹ گیا، امت مسلمہ میں خاندانی نظام ہی تو سلامت بچا ہے، میڈیا اور اسمارٹ فونز پر جتنی فحاشی لائیں گے اس سے براہ راست خاندانی نظام کو نقصان ہوگا،  اسی کا نتیجہ ہے پاکستان میں خواتین اور بچوں سے زیادتی کے جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پردے ہے ہی خاندانی نظام کو بچانے کیلیے، ہالی ووڈ میں شادی کی اوسط مدت ڈھائی سال ہے، کیونکہ اس طرز زندگی میں خاندانی نظام نہیں چلتا، ارطرل لانے کا مقصد ہی لوگوں کو متبادل دینا تھا، جس میں ہالی ووڈ بالی ووڈ کا گند نہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ عوام میرا ساتھ نکل پڑے ہیں، اداروں میں بھی انسان ہوتے ہیں، وہ عوام کو نہیں روک سکتے اور نہ ہی وہ روکنا چاہیں گے، کیونکہ اداروں کو بھی اندر سے دباو کا سامنا ہوگا، اس عوامی لہر کو کوئی نہیں روک سکتا۔مجھے نکال دیں تو پی ٹی آئی میں کوئی اور لیڈر بن جائے گا۔