منی لانڈرنگ کیس ،شہباز ،حمزہ سمیت ملزمان کی عبوری ضمانت میں 28مئی تک توسیع

 سلمان شہباز شریف ، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے عدم پیشی پر وارنٹ گرفتاری جاری

عدالت کا آئندہ سماعت پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم

 سلمان شہباز سمیت تین اشتہاری ملزمان کیخلاف ضابطے کی کارروائی کرکے پھر فرد جرم عائد کی جائے،پراسیکیوٹر

پراسکیوشن چار ماہ کیوں خاموش رہی، کیا ملزمان کو فائدہ پہنچانا تھا،عدالت

درخواست ریکارڈ پر آ گئی ہے، عدالت مناسب حکم جاری کر دے،پراسیکیوٹر

 مقدمے میں جن 14 اکائونٹس سے لین دین کا ذکر ہوا وہ سب بینکنگ چینل سے ہوئیں،امجدپرویز

عدالت کا وقار ہے اس لئے وہ آئے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہو،نیب اور این سی اے نے تحقیقات کیں، میرے خلا ف ایک دھیلے کی کرپشن نہیں نکالی،شہباز شریف

لاہور (ویب  نیوز)جج سپیشل کورٹ سینٹرل لاہور اعجاز حسن اعوان نے16ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں وزیر اعظم میاں محمد شہبا ز شریف، وزیر اعلی پنجاب محمد حمزہ شہباز شریف اور دیگر ملزمان کی کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کر دی۔عدالت نے آئندہ سماعت پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ سپیشل سینٹرل کورٹ نے سلمان شہباز شریف ، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے عدم پیشی پر وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔ ہفتہ کے روز سپیشل جج سینٹرل اعجاز حسن اعوان نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے اور اپنی حاضری مکمل کروائی۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی عدالت آمد کے موقع پر بے نظمی دیکھی گئی۔ جج سپیشل کورٹ سینٹرل نے کہا کہ وہ جب اندر آرہے تھے تو دیکھا کہ سیکیورٹی اہلکار کس طرح گلے پڑے ہوئے ہیں، اگر یہ سکیورٹی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے، وہ گاڑی میں بیٹھے تھے تو سکیورٹی والے ان کے گارڈ کے گلے پڑ گئے۔ عدالت نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو طلب کر لیا جس پر عدالتی اہلکار نے کہا کہ عدالت کا پیغام دونوں پولیس افسران کو دیا ہے لیکن وہ اندر آنے کو تیار نہیں۔جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ پولیس والوں کے یہ حالات ہیں، عدالت کا حکم نہیں مان رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سکیورٹی اہلکار اندر نہیں آنے دے رہے، ان کی طرف سے وکلا درخواست دے دیں۔سکیورٹی کے معاملہ پر جج نے کہا کہ تحریری طور پر بتائیں کہ کس نے جج کی گاڑی روکی۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بھی بتایا کہ ان کا راستہ بھی روکا گیا ہے۔عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا یہ کیسی سکیورٹی ہے کہ سائلین کا داخلہ بند کر دیا گیا ؟ ایسا تو کبھی نہیں دیکھا جو حالات اس عدالت کے باہر ہوگئے۔ عدالت نے فوری سکیورٹی انچارج کو طلب کرلیا۔ شہباز شریف نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جناب میں اس سارے معاملے کو دیکھتا ہوں۔ دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اب تک چالان میں اشتہاری ملزمان کو ضابطہ کی کارروائی کے بعد اشتہاری قرارنہیں دیا۔ اس پر جج نے کہا کہ اشتہاری قراردینے کا آرڈر جاری کررکھا ہے۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2008 سے 2018 تک مبینہ جرم کا الزام لگایا گیا، واقعہ کی ایف آئی آر بلاجواز تاخیر سے درج کی گئی۔انہوں نے کہا کہ چالان جمع کراتے ہوئے استغاثہ نے کئی چیزیں ختم کر دیں۔سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ مقدمے کے 3 اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے۔سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں پراسیکیوشن کی طرف سے پیش ہوا ہوں، چالان میں اشتہاری ملزموں کیخلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ کوئی بھی ایسا قانونی نکتہ چھوڑنے پر ملزم فائدہ لے سکتے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ 4 ماہ پراسیکیوشن کیوں خاموش رہی ہے؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں 3 ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، سلمان شہباز، مقصود اور طاہر نقوی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جائے، جس پر جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ یہ ملزمان تو مجسٹریٹ کی عدالت سے اشتہاری ہو چکے ہیں۔سپیشل پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا کہ یہ درخواست ریکارڈ پر آ گئی ، عدالت مناسب حکم جاری کر دے۔پراسیکیوٹر نے گزارش کی کہ عدالت نے تاحال چالان میں ملزموں کو ضابطے کی کارروائی کے بعد اشتہاری نہیں کیا، اگر اس کیس کو ایسے ہی لیکر چلیں گے تو آگے جا کر ملزمان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں جن 14 اکائونٹس سے لین دین کا ذکر ہوا وہ سب بینکنگ چینل سے ہوئیں، اس کیس میں بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا گیا ، ملزمان نے بغیر ثبوت کے بدنامی برداشت کی، لگتا ہے ایف آئی آر نیٹ فلکس سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ، یہ ایک فلمی ایف آئی آر ہے۔سماعت کے دوران وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 2008 سے 2018 کے دوران الزامات لگائے گئے، بہت سے الزامات کو پراسیکیوشن ٹیم نے چالان میں ختم کر دیا، کہا گیا فیک کمپنیوں کے ذریعے معاملات کو چلایا گیا، کہا گیا ایک اکانٹ میں 2 ارب سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، ایف آئی آر اور چالان میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہباز شریف کیخلاف تحقیقات کی سربراہی سابق مشیر احتساب نے کی۔عدالت نے سلمان شہباز سمیت دیگر کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔دوران سماعت وزیر اعظم شہبا ز شریف روسٹرم پر آگئے اور بیان دیا کہ عدالت کا وقار ہے اس لئے وہ آئے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہو۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے کہنے پر برطانیہ کی ٹیم نے ان کے خلاف تحقیقات کیں، جس میں وہ بے قصورثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 2004میں پاکستان آیا تھا اگر میرے پاس حرام کا پیسہ ہوتا تو پاکستان کیوں آتا۔ میں قوم کے اربوں روپے بچائے۔ نیب اور این سی اے نے تحقیقات کیں، میں ان کا رشتہ دار تو نہیں تھا، این سی اے نے پونے دو سال کی تحقیقات میں میرے خلا ف ایک دھیلے کی کرپشن نہیں نکالی۔خدانخواستہ اگر میں نے کرپشن کی ہوتی تو میں اس عدالت کے سامنے نہ ہوتا۔ این سی اے نے پونے دوسال تحقیقات کیں کچھ بھی نہیں ملا۔ شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا کہ میرے خلاف لندن کرائم ایجنسی نے تحقیقات کیں، دبئی ، فرانس ، سوئٹزر لینڈ میں بھی میرے خلاف پونے دو سال تحقیقات کروائی گئیں۔شہباز شریف نے کہا کہ میرے تمام اثاثے ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں، تحقیقات میں کرپشن کا ایک روپیہ بھی ثابت نہیں ہوسکا، برطانیہ میں رہا، کشکول تو نہیں اٹھانا تھا، وہاں کاروبار کیا، میرے خلاف کرپشن کے سیاسی کیسز بنائے گئے۔دوران سماعت وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل محمد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عبوری ضمانت کے حوالے  سے درخواستوں پر دلائل دیئے تاہم ان کے دلائل مکمل نہ ہو سکے۔ عدالت نے امجدپرویز کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عبوری ضمانتوں کے حوالے سے دائر درخواستوں پر دلائل مکمل کریں۔ وقفہ کے بعد اپنے دلائل میں امجد پرویز نے کہا کہ سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کی جانب سے لگائے گئے الزامات بالکل جھوٹے تھے کیونکہ منی لانڈرنگ کا کوئی بھی ثبوت استغاثہ کی فائل پر موجود نہیں اور صرف سیاسی بیانات کی حد تک اس کیس کو لے کر چلا گیا اور ثبوت فراہم نہیں کئے گئے۔ امجد پرویز نے کہا کہ اگر کوئی چپڑاسی ہے یا صفائی والا ہے اگر جائز ذرائع سے رقم کسی کے اکائونٹ میں آرہی ہے تو یہ کوئی جرم نہیں ۔ عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کی مزید سماعت 28 مئی تک ملتوی کر دی۔ ZS

#/S