اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی کوشہباز گل مبینہ تشدد کیس کی انکوائری کا حکم دیدیا

آہ و بکا مچی ہوئی ہے تشدد ہوگیا، کیا یہ میڈیا ہائپ ہے یا واقعی ایسا ہوا ہے؟ ہم نے یہ دیکھنا ہے،قائم مقام چیف جسٹس ،جسٹس عامر فاروق

شہباز گل کے وکلا نے وفاقی پولیس کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا توجسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایسے نہیں کریں کورٹ روم کو سرکس نہیں بنائیں

اللہ دتہ کا کیس ہائی کورٹ نہیں آتا، یہ ریمانڈ کا کیس اس لیے سن رہے ہیں وہ سیاسی شخصیت ہیں، عام افراد کے تو روزانہ ریمانڈ ہوتے ہیں،ریمارکس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

عمران خان کے چیف آف اسٹاف ڈاکٹر شہباز گل پر مبینہ تشدد کے معاملے پر عدالت عالیہ نے آئی جی اسلام آباد کو انکوائری کا حکم دیدیا،جبکہ پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے وفاقی پولیس کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ ڈاکٹر شہباز گل کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ دوران سماعت آئی جی اسلام آباد نے شہباز گل پر ریمانڈ کے دوران تشدد کی تردید کردی، جبکہ عدالت نے آئی جی سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ پمز ہسپتال میں شہباز گل کا میڈیکل ہوا اس میں کیا آیا ہے؟ اس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں سانس کی تکلیف کا بتایا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل نے ابتدائی طور پر میڈیکل چیک اپ کروانے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آہ و بکا مچی ہوئی ہے تشدد ہوگیا، کیا یہ میڈیا ہائپ ہے یا واقعی ایسا ہوا ہے؟ ہم نے یہ دیکھنا ہے۔ وکیل نے عدالت کو بتایا 9 اگست کو گرفتاری ہوئی، 10 اگست کو ریمانڈ ہوا، 11 اگست کو پمز بورڈ نے میڈیکل کیا۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا 12 اگست کو شہباز گل نے مجسٹریٹ کے سامنے دوبارہ پیش ہونے پرتشدد کا بتایا؟ جواب میں راجا رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ نہیں، شہباز گل نے مجسٹریٹ کو تشدد کا نہیں بتایا۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا ابھی پٹیشنر کہاں ہے؟ فیصل چودھری نے کہا کہ شہباز گل پمز ہسپتال میں بے ہوشی کی حالت میں ہیں، سپیشل پراسیکیوٹر جیل انتظامیہ کی طرف سے کوئی بیان نہ دیں، مجھے صبح پمز ہسپتال میں بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ آج یہ ریمانڈ کا کیس اس لیے سن رہے ہیں وہ سیاسی شخصیت ہیں، عام افراد کے تو روزانہ ریمانڈ ہوتے ہیں، اللہ دتہ کا کیس ہائی کورٹ نہیں آتا، سوا 4 بجے شام کو بھی یہ کورٹ روم بھرا ہوا ہے۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ تمام میڈیا چینلز نے تشدد کا واقعہ رپورٹ کیا۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میڈیا میں میری کورٹ کی غلط رپورٹ شائع ہوتی ہے، خبر کچھ ہوتی ہے اور سرخی کچھ لگتی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آئی جی اسلام آباد، آپ بتائیں کہ آپ کیا اقدامات کریں گے؟ جواب میں شہباز گل کے وکلا نے عدالت میں بیان دیا کہ ہمیں ان پر اعتماد نہیں ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے شہباز گل کے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نہیں کریں کورٹ روم کو سرکس نہیں بنائیں۔ عدالت نے اڈیالہ جیل کے میڈیکل افسر سے شہباز گل کے ابتدائی طبی معائنہ کی رپورٹ طلب کرلی، جس کے جواب میں میڈیکل افسر اڈیالہ جیل نے کہا کہ وہ رپورٹ تو میں ساتھ نہیں لایا۔ جسٹس عامر فاروق نے میڈیکل افسر اڈیالہ جیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو میں نے علاج کے لیے تو نہیں بلایا۔ عدالت نے سوال کیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کدھر ہیں؟ جس کے جواب میں ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل تبدیل ہو گئے، میرے پاس چارج ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ لوگوں کو شوکاز نوٹس جاری کر رہا ہوں، شام چار بجے روبکار ملی تو رات نو بجے حوالگی کیوں کی؟ میڈیکل افسر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل نے سوا چار بجے دل کی تکلیف کی شکایت کی، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیسے ہی ایڈیشنل سیشن جج کے ریمانڈ کا آرڈر ملا تو تکلیف ہو گئی۔عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔