سانحہ پشاور کے تناظر میں وزیراعظم ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پارلیمینٹ کو اعتمادمیں لیں گے، وفاقی وزرا

ارکان پارلیمان کی تجاویز کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے گی

یہ وقت متحد اور متفق ہونے کا ہے، دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کی طرح متفق ہونا پڑے گا ، قومی اسمبلی میں اظہار خیال

اسلام آباد ( ویب نیوز) وفاقی وزراء کی جانب سے قومی اسمبلی میں کہا گیا ہے کہ امریکی جنگ میں خدمات پیش نہیں کرنی چاہیں تھیں ،خون کی ہولی پھر ہمارے بازاروں، مساجد اور سکولوں میں آ گئی۔، دہشت گردی کے معاملے پر ہم سے بھی کوتاہیاں ہوئی ہیں سانحہ پشاور کے تناظر میں وزیراعظم ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پارلیمینٹ کو اعتمادمیں لیں گے ارکان پارلیمان کی تجاویز کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے گی ، یہ وقت متحد اور متفق ہونے کا ہے، دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کی طرح متفق ہونا پڑے گا ۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پشاور میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا،خیبر پختونخوا میں ماضی میں آرمی سکول جیسے کئی واقعات ہوئے،کہیں قیمتیں جانیں دہشتگردی کی نظر ہوئیں، 2008 سے 2013 تک دہشتگری کیخلاف جنگ لڑی گئی،2 سال پہلے ہمیں ان حالات کے بارے  میں بریفنگ دی گئی،ہمیں کہا گیا کہ ان لوگوں سے بات چیت ہوسکتی ہے اور یہ امن پر آ سکتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کی  جنگ کے بعد ہزاروں لوگوں کو پاکستان بسایا گیا ۔ پولیس لائن پشاور میں دہشتگردی کے  واقعے میں 100 افراد شہید ہوئے،خودکش حملہ آور نے مسجد میں پہلے صف میِں خود اڑایا۔وزیردفاع نے کہا کہ ہمیں قومی یکجہتی کی ایک بار پھر ضرورت ہے،دہشتگردی کا بیج ہم نے خود بویا۔ اس سے پہلے بھی اے پی ایس کا واقعہ خیبرپختونخوا میں ہوا تھا۔پچھلے کچھ سالوں میں دہشتگردی کے خلاف  بھرپور جنگ لڑتے ہوئے اس کا خاتمہ کیا گیا ۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم  اور آرمی چیف  پشاور گئے اور ہسپتال میں  مریضوں کی عیادت کی، یہ وقت متحد اور متفق ہونے کا ہے، دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن جیسے متفق ہونا پڑے گا ۔ امید ہے وزیراعظم اس  طرح کو  کوئی قدم اٹھائیں گے ۔ وزیردفاع نے کہا کہ  روسی مداخلت پر  جنگ میں ہم نے اپنی خدمات امریکہ کو دیں، افغان جنگ لڑی گئی امریکا یہاں سے فتح کا جشن مناتے ہوئے چلا گیا اور ہم دس سال نمٹتے رہے ،وہ جنگ ہمارے گھر تک پہنچ گئی اور لوگوں کا خون بہایا جاتا رہا۔انھوں نے کہا کہ بھارت یا اسرائیل میں بھی مساجد میں وہ نہیں ہوتا جو ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ پشاورمسجد کی منہدم ہونے والی چھت کے نیچے سے آج بھی لوگ نکل  رہے ہیں ۔  وزیردفاع نے کہا کہ  نائن الیون پر ہمیں ایک دھمکی ملی اور ہم ڈھیر ہو گئے۔ خون کی ہولی پھر ہمارے بازاروں، مساجد اور سکولوں میں آ گئی۔ اگر ہم  سمجھتے تھے کہ  افغانستان سے یہاں لاکر بسائے گئے لوگ  پرامن معاشرے میں رہ سکتے ہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد کلمے پر رکھی گئی کیا ہمارے اعمال مملکت کی بنیاد کے مطابق ہیں؟کون اس خون کا حساب دے گاہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔انھوں نے کہا کہآج بھی سیاسی مصلحت سے کام لیا جا رہا ہے اور اس کی مذمت اس طرح نہیں کی جا رہی،آج بھی جس طرح اس سانحہ کے خلاف آواز ہونی چاہئے ویسی آواز نہیں آئی ،یہ ساری قوم کی جنگ ہے، یہ کسی فرقے یا مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ اس جنگ میں کوئی لکیر نہیں کھینچی گئی، ہر چیز میں کنفیوژن ہے۔دہشت گردی معصوم لوگوں کی جان لینے کے لیے ہوتی ہے۔یہ ایوان فیصلہ کرے کہ کیسے اس دہشت گردی کے خلاف لڑا جائے ۔کیا دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں کیا ہماری خدمات کو تسلیم کرتی ہے،بنگلہ دیش کے معاشی حالات ہمارے سے بہتر ہیں،سپر پاور کا آلہ کار بننے کا ہمارا شوق پرانا ہے،کیا وہ طاقتیں ہمارے ساتھ ہیں۔وزیردفاع نے کہا کہ ساڑھے چار لاکھ سے زیاد افغان شہری ایک سال پہلے پاکستان آئے جو واپس نہیں گئے۔پچاس لاکھ افغانی یہاں بسلسلہ روزگار یہاں مقیم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کا شکار ہماری اقلیتیں بھی ہوئی ہیں۔یہ ایوان حکومت کو رہنمائی فرمائے کہ دہشتگردی کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔دہشتگردی کے خلاف 83 ہزار شہادتیں ہیں، 126 ارب ڈالر اس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لگا چکے ہیں،کیا دنیا اس وجہ سے ہماری معترف ہے؟؟خواجہ آصف نے کہا کہ سیاست ۔اعمال ،زبان  اور گفتگو میں دہشتگردی آ گئی۔ہم نے اپنا سارا ملک گروی رکھ دیا تھا۔دہشتگردی کا شکار ہماری اقلیتیں بھی ہوئی ہیں ۔ ہم آپس میں بھی دہشتگردی کرتے ہیں ۔سیاست میں بھی دہشتگردی آ گئی ہے، زبان اور اعمال کی دہشتگردی آ گئی ہے،ہم 500 ملین ڈالر کے لیے بھیک مانگتے ہیں،ہمارا اندرونی خلفشار ہمیں لے بیٹھے گا،ہمیں وہ کردار ادا کرنا چاہیے جس کا آج کے حالات تقاضا کر رہے ہیں۔ہمیں پہلے اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنے کی ضرورت ہے، میں امریکا کا مخالف نہیں، ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں مگر ان کے کہنے پہ ہمیں جنگ نہیں لڑنی چاہئے تھی  ۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہمارا دکھ سانجھا ہے، کوئی ضرورت نہیں تھی کہ ہم مجاہد تیار کرتے، پرائی لڑائی لڑتے۔ہم میں کوتاہیاں ضرور ہیں مگر سیکیورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دیں ۔ہمارے فوجی جوان، کے پی پولیس، سی ٹی ڈی سمیت پوری قوم نے قربانیاں دی ہیں ۔اس وقت پوری قوم ان شہدا کیساتھ کھڑی ہے۔کہا جارہا ہے کہ پالیسی حکومت بنائے گی،یہ پالیسی حکومت نہیں یہ پارلیمان دے گی،اس ایوان میں وزیراعظم آئینگے، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف ایوان میں آئینگے، ماضی قریب کی طرح قومی سلامتی سے متعلق وے فارورڈ دیا جائیگا۔کئی واقعات لاہور میں بھی ہوئے جس میں سو سے زائد افراد نشانہ بنے کئی افسران ان واقعات میں شہید ہوئے ،ننانوے فیصد واقعات میں خود کش بمباروں کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا ان کا تعلق جس علاقے سے بھی تھا وہ پاکستان کے دوست نہیں  تھے۔ پنجاب سے ایک آواز بھی اٹھی ہو کہ ہمیں کس بات کی سزا دے رہے ہیں۔نور عالم کے جزبات کا احترام،انکی گفتگو سے اتفاق کرتا ہوں ۔پشاور یا لاہور کا معاملہ نہیں پوری قوم کے ایسے ہی جذبات ہیںہم نے ہر قیمت پر اس دہشت گردی کی جنگ جیتیں گے ہم اسی جذبے کے تحت اسی پالیسی کے تحت آگے بڑھیں گے جو سانحہ اے پی ایس کے موقع پر بنائی گئی تھی  ۔ضرب عضب اور ردالفساد کے سبب دہشت گردی کو ہم نے کافی حد تک ختم کیا آج پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے۔سابقہ بریفنگز میں کہا گیا کہ ان  لوگوں سے بات چیت کی جائے ،یہ بات بھی کی گئی کہ ان کی تعداد سات آٹھ ہزار اور ان کی فیملی 25000 ہزار کے قریب ہے ۔اس وقت بھی کہا گیا کہ ان کا کیا قصور ہے ان کیساتھ بات چیت ہونی چاہیئے ۔ پالیسی چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کی گئی ہو مگر یہ طریقہ کار غلط ثابت ہوا ۔اس کے نتائج آج ہم آج بھگت رہے ہیں،پچھلی حکومت کی فاش غلطیوں کا خیمازہ بھگتنا پڑ رہا ہے،یہ واقعہ پولیس لائنز کی مسجد میں ہوا، وہاں پر وزیراعظم کا بھی سوال تھا ،یہ ریڈ زون کا علاقہ تھا تو کیسے یہ سانحہ ہوا اس ایریا میں بعض فیملیز بھی رہتی ہیں اور عام افراد بھی بعض ایسی جگہوں پر وہاں رہتے ہیں ۔آئی جی کے پی نے بھی بتایا کہ امکان ہے کہ کسی سویلین رہائشی خاندان نے اسکی سہولت کاری کی ہو۔میرے شہر میں بھی شہدا کے جسد خاکی گئے ،کسی نے نہیں کہا کہ ہمارا کیا قصور ہے ، ہم میں کوتاہیاں بھی ہیں ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپریشن ہوتے ہیں ،دہشتگردوں کو ہلاک بھی کیا جا تا ہے اور اپنی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں۔پوری قوم اس دہشتگردی کے  خلاف پر عزم ہے ،اور اپنے جوانوں کی پشت پر کھڑی ہے ۔وزیراعظم ایوان میں تشریف لائیں گے ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی آئیں گے ۔پہلے کی طرح پارلیمنٹیرینز کو بریفنگ دی جائے گی ۔آگے کا راستہ تلاش کیا جائے گا ۔وزیراعظم نے ہدایت کہ ہے کہ سارا معاملہ ایوان کے سامنے رکھیں ۔ وزیراعظم اور عسکری قیادت بھی ایوان کی رہنمائی حاصل کرے گی ،پشاور سانحہ میں اب تک سو شہادتیں ہو چکی ہیں ،تین سویلین ،ستانوے پولیس آفیسرز اور جوان ہیں ۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ،دو سو سے زائد زخمیوں میں ستائیس کی حالت تشویشناک ہے۔ریسکیو آپریشن مکمل اورملبہ ہٹا لیا گیا ہے ۔ ایک ہی خودکش تھا،بمبار کیسے پہنچا ،کس نے سہولت دی ،ادارے تحقیقات کے قریب ہیں ۔انکوائری مکمل ہونے پر وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے ۔یہ واقعہ پاکستان کے خلاف ہے ،قوم کے خلاف ہے ۔یقین دلاتا ہوں ہر شہید وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کا احترام اور دکھ اپنے عزیز جیسا ہے۔وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہسانحہ پشاور کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ، پاکستان آج بھی دہشت گردی کا سب سے زیادہ متاثر ملک ہے ،سیکیورٹی فورسز سمیت پوری قوم نے دہشت گردی میں بڑی قربانیاں دیں ۔ پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا سامنا رہا ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے قربانی دی، ہمارے کارکنان شہید ہوئے ۔ماضی قریب میں کہا گیا کہ اتنے ہزار لوگوں کو بسانا ہے، اس وقت کیا سمجھ نہیں آئی تھی کہ کن لوگوں کو بسانا ہے ۔ ہمارے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں خطرہ نظر آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ ملک کے لوگوں کو امن چاہیئے اس کے لئے بیانیہ چاہیئے ۔دہشت گرد صرف اور صرف دہشت گرد ہے وہ کسی کا بھائی نہیں ہے، ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی ۔یہ بیانیہ ہے اس کے اثرات کئی سالوں تک متاثر کرتے ہیں ۔ ہم کیسے بھول جائیں، فوجی آمروں  کے کرتوتوں کو بھگت رہے ہیں، اس قوم کو اس نے تقسیم کیا ۔ہم نے 80 ہزار لوگ قربان کیے جسے ایک بیان کے ذریعے اڑا دیا جاتا ہے ۔ اس کا ایک ہی بیانیہ ہے وہ ہے نیشنل ایکشن پلان، جو اس سے انحراف کرے گا وہ ملکی بیانیہ سے انحراف کرے گا ۔میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ کس طرح میں پشاور کے سوگواروں سے تعزیت کروں ۔پاکستانی قربانی دینا چاہتے ہیں مگر کب تک ؟ قاتل صرف اور صرف قاتل ہے وہ گڈ بیڈ نہیں ہوسکتا  شازیہ مری اپنی تقریر کے دوران شہدا کا تذکرہ کرتے کرتے آبدیدہ ہوگئیں ۔شازیہ مری نے کہا کہ جس جماعت کو، جس خاندان کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے اس پر جھوٹا، من گھڑت الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اگر شکل اچھی نہ ہو تو کم از کم بات اچھی کرنی چاہیے، ایک شخص ملک میں انتشار چاہتا ہے ۔اس ملک کو استحکام کی ضرورت ہے مگر ایک شخص اپنے اسکینڈلز کی توجہ ہٹانے کے لیے بھونڈی حرکت کررہا ہے ۔ ہمیں چپ نہیں رہنا بلکہ ہمیں اب امن چاہیے کوئی ابہام نہیں ہے ۔پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، سیکیورٹی ہماری ریڈ لائن ہے۔ جو اس ملک میں دہشت گردی کرے گا وہ دہشت گرد ہوگا، جو سرپرستی کرے گا وہ بھی دہشت گرد ہوگا۔

#/S