- امریکی رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقلیتوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر پرتشدد کارروائیوں کی نشاندھی
- 200 ملین بھارتی مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش،مسلمانوں کے گھروں اور ذرائع معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال ہورہا ہے
- جموں وکشمیر میں لوگ ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں لواحقین کو لاشیں بھی نہیں دی جاتیں ۔امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق رپورٹ
واشنگٹن (ویب نیوز)
امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،اقلیتوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر پرتشدد کارروائیوں اور جموں وکشمیر میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی نشاندھی کی ہے ۔امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری عالمی انسانی حقوق کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں جاری ہیں اورمذہبی اقلیتوں، اختلاف رائے رکھنے والوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں گزشتہ سال بھی ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ جاری رہا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ حالیہ برسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بی بے پی کی حکومت پر ایڈوکیسی گروپوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اس بیان کے ایک سال بعد جاری کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ امریکہ بھارت میں بعض حکومتی، پولیس اور جیل حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ سال 2022 میں بھارتی فوج کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں پر تشددکارروائیاں جاری رہیں ۔ بھارتی فورسزکے ہاتھوں مقبوضہ کشمیرمیں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی اطلاعات ملی ہیں اور کئی واقعات میں بھارتی پولیس نے لواحقین کو انکے پیاروں کی لاشیں دینے سے بھی انکار کیا۔امریکی انتظامیہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں آزادی صحافت پر قدغن اور اقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق صحافیوں اور سیاسی مخالفین کی جبری گرفتاریوں کاسلسلہ جاری رہا ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی پولیس اور جیل حکام کی طرف سے سیاسی نظربندوں یا نظربندافرادپرغیر انسانی اور توہین آمیز سلوک اور صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریاں یا ان پر مقدمات کے انداراج کا سلسلہ جاری رہا ۔ مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مذہبی پولرائزیشن کو فروغ دیا ہے۔ناقدین 2019کے متنازعہ قانون شہریت کا حوالہ دیتے ہیں جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مسلمانوں کیلئے امتیازی قانون قرار دیا تھا۔رپورٹ میں اگست 2019میں مودی حکومت کی طرف سے مسلم اکثریتی مقبوضہ جموںو کشمیر کی
خصوصی حیثیت کی منسوخی کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے گزشتہ سال بھارت کے بعض حصوں میں کئی دکانوں اور جائیدادوں کو بھی منہدم کیا، جن میں سے بیشتر مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مسماری کی مہم ہندوستان کے 20کروڑ مسلمانوں کو ڈرانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ مودی حکومت نے اس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ قانون کو نافذ کر رہی ہے۔ امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مودی حکومت مبینہ طور پر مسلمانوں کے گھروں اور ذرائع معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔2014میں مودی کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے، بھارت ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 140ویں درجے سے 150ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو بھارت کی اب تک کی سب سے کم ترین پوزیشن ہے۔ انٹرنیٹ ایڈوکیسی واچ ڈاگ ایکسیس نائو کا کہنا ہے کہ بھارت 2022سمیت مسلسل پانچ سال سے دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند کرنے والے ممالک کی کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہے ۔امریکی رپورٹ میںمزید کہا گیا ہے کہ "سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مودی حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو حراست میں لینے کے لیے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یواے پی اے کا غلط استعمال بھی کیا۔ماہرین اس رپورٹ کو ایک اہم پیش رفت قراردای ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اقتصادی روابط اور حریف چین کے علاقائی اور عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے دوران امریکہ کے لیے بھارت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے امریکہ شاذ و نادر ہی بھارت پر تنقید کرتا ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ انڈین حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت نے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی منافرت کو بڑھایا ہے۔مودی حکومت کے ناقدین 2019 کے پڑوسی ممالک کے مسلمان تارکین وطن کو نکالنے والے شہریت کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بنیادی طور پر امتیازی قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ تبدیلی مذہب مخالف قانون سازی اور 2019 میں مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔دوسری جانب انڈین حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد تمام کمیونٹیز کی ترقی ہے۔سنہ 2022 میں حکومت نے انڈیا کے کچھ حصوں میں غیرقانونی دکانوں اور جائیدادوں کو بھی منہدم کر دیا تھا جن میں سے اکثر مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ انہدام کی مہم انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش تھی جبکہ حکومت کا موقف تھا کہ وہ قانون نافذ کر رہے ہیں۔پیر کو جاری کی گئی امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ حکومت مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی کی تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے گھروں اور کاروبار کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔سنہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انڈیا ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 140 ویں سے نیچے آ چکا ہے۔ گزشتہ برس اس کا 150 واں نمبر پر تھا جو اب تک سب سے کم ہے۔