عمران خان کے من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں: آئی ایس پی آر

متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں

ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے،بیان

آئی ایس آئی نے 18 مارچ کو میری پیشی سے پہلے شام کو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر قبضہ کیوں کیا؟.. عمران خان

راولپنڈی ( ویب نیوز )

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے الزامات کی مذمت کی ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق یہ من گھڑت، بدنیتی پر مبنی الزام انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طریقہ بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے،آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔ترجمان پاک کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔۔

آئی ایس آئی کے اہلکار سی ٹی ڈی اور وکلاء میں کیوں چھپے ہوئے تھے؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے متعدد سوالات کے جواب مانگ لیے۔وزیراعظم شہباز شریف کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں سابق وزیراعظم نے لکھا کہ کسی ایسے شخص کے طور پر جس پر گزشتہ چند مہینوں میں اپنی زندگی پر 2 قاتلانہ حملے ہوئے ہوں، کیا میں شہباز شریف سے سوال پوچھنے کی ہمت کر سکتا ہوں۔عمران خان نے سب سے پہلے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا مجھے، ایک شہری کو، ان لوگوں کو نامزد کرنے کا حق ہے جنہیں میں سمجھتا ہوں مجھ پر قاتلانہ حملوں کے ذمہ دار ہیں؟ مجھے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے میرے قانونی اور آئینی حق سے کیوں محروم کیا گیا؟ کیا شہباز شریف کے ٹویٹ کا مطلب یہ ہے کہ افسران قانون سے بالاتر ہیں یا وہ جرم نہیں کر سکتے؟ اگر ہم الزام لگاتے ہیں کہ ان میں سے کسی نے جرم کیا ہے تو ادارے کو کیسے بدنام کیا جا رہا ہے؟پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید لکھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران وزیر آباد جے آئی ٹی کو سبوتاژ کرنے والا کون اتنا طاقتور تھا؟ کیا شہباز شریف اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ آئی ایس آئی نے 18 مارچ کو میری پیشی سے پہلے شام کو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر قبضہ کیوں کیا؟ آئی ایس آئی کے اہلکار سی ٹی ڈی اور وکلاء میں کیوں چھپے ہوئے تھے؟ مقصد کیا تھا اور آئی ایس آئی کا کمپلیکس میں کیا کاروبار تھا؟ جب شہباز شریف سچائی سے ان سوالوں کے جوابات دے سکتے ہیں تو سبھی اس کی طرف اشارہ کریں گے۔عمران خان نے مزید لکھا کہ ایک طاقتور آدمی اور اس کے ساتھی سب قانون سے بالاتر ہیں۔ اب وقت آگیا ہے ہم سرکاری طور پر اعلان کریں پاکستان میں صرف جنگل کا قانون ہے جہاں Might is Right ہے۔اس سے قبل ایک اور ٹویٹ میں سابق وزیراعظم نے لکھا کہ ایک بدعنوان IG کی قیادت میں وفاقی دارالحکومت کی پولیس ایسے وقت میں تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کیخلاف کریک ڈاؤن میں لگی ہوئی ہے جب قومی انتخابات محض چند ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ تاہم جب افضل خان جیسے نوجوان، جو یونین کونسل ایف-ٹین سےہماراچیئرمین اور ابھرتاہوا نوجوان رہنماہے،ایک تحریک کاحصہ ہوں تو پولیس کی بربریت ہمارے عزم کو پختہ ہی کرتی ہے۔