- قومی اسمبلی کی مدت دو ماہ رہ گئی ،
- 13 جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد ، جی ڈی اے ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ایوان کا حصہ
- قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018 ء کو حلف اٹھایا
- یہ اسمبلی25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ۔
- سابقہ دو قومی اسمبلیوں کی طرح اس قومی اسمبلی کو بھی دو وزراء اعظم کے انتخاب کا موقع ملا
- قومی اسمبلی سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کوعدم اعتمادکے ذریعے برطرف کردیا گیا
اسلام آباد ( ویب نیوز)
قومی اسمبلی کی مدت دو ماہ رہ گئی ، اپوزیشن کی بڑی جماعت ایوان سے باہر ہے جبکہ 13 جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد کے علاوہ جی ڈی اے ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ایوان کا حصہ ہیں جبکہ دو ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے بھی ہے ۔ اس خبررساں ادارے کی پارلیمانی رپورٹ کے مطابق موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018 ء کو حلف اٹھایا ۔ یہ اسمبلی25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ۔ سابقہ دو قومی اسمبلیوں کی طرح اس قومی اسمبلی کو بھی دو وزراء اعظم کے انتخاب کا موقع ملا ۔ 17 اگست 2018 ء کو قومی اسمبلی سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا ۔ وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا ۔ یہ تبدیلی 9 اپریل 2022 ء کو آئی دو روز کے بعد اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف منتخب کر لیے گئے اور قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے نو منتخب وزیر اعظم سے حلف لیا تھا ۔ اسپیکر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی تبدیل کئے گئے اس اسمبلی کے آغاز میں اسد قیصر اسپیکر جبکہ قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے موجودہ قومی اسمبلی کی غیر معمولی کارروائی قاسم سوری کی عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف رولنگ تھی جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیر آئینی قرار دے دیا تھا ۔ بعد ازاں ایوان میں راجہ پرویز اشرف کو اسپیکر جبکہ زاہد اکرم درانی کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا گیا جو تاحال اپنے عہدوں پر فائز ہیں ۔ موجودہ اسمبلی کو دو اپوزیشن لیڈر دیکھنے کا بھی موقع ملا آغاز میں شہباز شریف اس عہدے پر رہے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے گروپ سے راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا ۔ استعفوں کے حوالے سے بھی پی ٹی آئی تذبذب کا شکار رہی اور کوئی واضح فیصلہ نہ کر سکی جبکہ استعفے آنے کے بعد اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے بھی حیران کن موقف اختیار کیا کہ قواعد کے مطابق استعفوں کی تصدیق کی جائے گی اور یہ استعفے پس پشت ڈال دئیے گئیے ۔ واضح کیا گیا کہ رضاکارانہ یہ عمل اختیار کیا جاتا ہے اور تصدیق کے معاملے میں وہ وقت گزاری کرتے رہے ایک موقع پر اچانک انہوں نے استعفوں کی منظوری کا عمل شروع کر دیا اور یہ واضح نہیں کیا کہ متعلقہ ارکان سے تصدیق کی ہے کہ نہیں ۔ اس اسمبلی نے دو وزیر اعظم دو اپوزیشن لیڈر دو اسپیکرز دو ڈپٹی اسپیکرز دیکھنے کا اعزاز حاصل کیا اس سے قبل 2013 ء سے 2018 ء تک بھی اسمبلی کو دو وزیر اعظم محمد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی اس عہدے پر دیکھنے کو ملے 2008 ء سے 2013 ء تک بھی دو وزراء اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کا اسمبلی نے انتخاب کیا اس سے قبل سابق فوجی صدر پرویز مشرف (مرحوم ) کے دور میں اسمبلی نے تین وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی ، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کا انتخاب کیا ۔ دو ماہ بعد 13 اگست 2023 ء کو اس اسمبلی کی مدت پوری ہو جائے گی مدت پوری ہونے پر ساٹھ دنوں میں انتخابات آئینی تقاضا ہو گا اور اگر اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہو گئی تو نوے روز میں انتخابات کا وقت مل جائے گا ۔ حکمران اتحاد اسی تجویز پر غور کر رہا ہے کہ زیادہ انتخابی مدت کے حصول کے لیے ایک دو رو قبل اسمبلی تحلیل کر دی جائے جبکہ اسمبلی کی مدت میں ایک سال اضافے کی بھی تجاویز وقتا فوقتا سامنے آتی رہی ہے ۔