توشہ خانہ کیس : سپریم کورٹ نے سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم تک ملتوی کردی

اسلام آباد ( ویب نیوز ) 
سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم تک ملتوی کر دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل آفس سے کوئی آیا؟ آج کے حکم نامے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل میں رہنے کی صورتحال کا پوچھیں گے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں کس حال میں رکھا ہے ، سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں سہولیات سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔

چیئرمین پی ٹی آئکے وکیل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ہائیکورٹ کے سامنے تمام نکات پر دلائل دیے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کا یہی شکوہ تھا کہ آپ کو سنا نہیں جا رہا اب آپ کے تمام دلائل سن لیے گئے ہیں، ہائیکورٹ سے یہی امید رکھیں کہ وہ آپ کے نکات پر فیصلہ دے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا ہائیکورٹ کی کارروائی کا کیا نتیجہ نکلا؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا سسٹم کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ پہلے ہائیکورٹ سے فیصلہ ہو پھر سپریم کورٹ آئے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز پر تنقید نا کیا کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر غصے میں ججز پر تنقید کی جاتی ہے، آئین و قانون کے تحت فیصلے اپنے عہد کے مطابق کرتے رہیں گے۔

سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم آنے تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدم اعتماد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں  توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کل تک ملتوی

قبل ازیں توشہ خانہ کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو دی جانے والی یہ مختصر سزا ہے جو بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔ مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گی

دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اپنے کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا۔

چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور 4 ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔

اس پر وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی اور ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی۔

سردار لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کیلئے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس صاحب، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اسے روک سکتے ہیں، 4 گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے۔

وقفے کے بعد وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے دلائل دیے کہ سزا کیخلاف اپیل میں اسٹیٹ کو فریق بنایا ضروری ہے، سزا سنائے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی سٹیٹ کی تحویل میں ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کردی جائے، میرا مدعا یہ ہے کہ کم از کم سٹیٹ کو نوٹس کرکے شنوائی کا موقع دیا جائے۔

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ جن کیسز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر کے تحت ٹرائل ہوا، اس کیس میں ٹرائل سے پہلے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات مان بھی لیں تو سٹیٹ آکر کیا کرے گی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سٹیٹ کے پاس تو محض تحویل ہے، سٹیٹ کو شنوائی کا موقع ملے تو شاید وہ درخواستگزار کے حق میں کچھ کہہ دے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔