Pakistan and India flag together realtions textile cloth fabric texture

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات ماند پڑگئے
فیصلے سے کشمیریوں میں مایوسی اور بھارت کے ساتھ فاصلے مزید بڑھ گئے ، :امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

واشنگٹن( ویب نیوز  )

چار سال قبل مقبوضہ جموں اور کشمیر کی محدود خود اختیاری کے خاتمے سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اقدام کو پیر کے روزبھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں برقرار رکھاہے ۔ امریکی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق  تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے بھارت اور پاکستان  کے درمیان تعلقات میں کسی بہتری کے امکانات ممکنہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں الگ تھلگ ہونیکااحساس مزید بڑھے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایک متفقہ فیصلے میں کہا ہیکہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ایک عارضی شق تھی اور 2019 میں ایک ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے اسے ختم کرنے کا فیصلہ آئینی طور پرجائز تھا۔بھارت اور پاکستان  کے درمیان منقسم ہمالیائی علاقہ کشمیر عشروں سے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کی وجہ رہا ہے جس کی ملکیت کے دونوں دعوے دار ہیں۔بھارت کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم اور تجارت معطل کر دی تھی۔لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان حریفوں کے درمیان تعلقات میں شدید سرد مہری جاری رہے گی۔دہلی کے قریب جندال اسکول آف انٹر نیشنل افئیرز کے ڈین، سری رام چاولیہ نے کہا کہ "بھارت نے بنیادی طور پر کشمیر کے بارے میں یہ فیصلہ پاکستان کو ایک غیر اہم فریق کے طور پر پیش کرتے ہوئے کیا ہے ۔ اگر پاکستان اسے مسترد کرتا ہے تو بھی وہ کسی بھی چیز کو تبدیل نہیں کر سکتے ۔”انہوں نے کہا ، اس لئے تعلقات میں کسی قسم کی گرمجوشی یا بہتری کے حوالے سے اب زیادہ امکانات باقی نہیں بچے ہیں۔سری رام چاولیہ کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ان کی وجہ سے بھارت امریکہ اور مغرب کے زیادہ قریب ہو گیا ہے۔بقول ا نکے، یوکرین، اوراسی طرح اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعات کے نتیجے میں کشمیر بین الاقوامی ریڈار سے فی الواقع اوجھل ہو گیا ہے۔چاولیہ نے کہا ،” بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ واقع اس کی سرحد پر سکون رہے لیکن وہ اس مرحلے پر گفت وشنید کے کسی سلسلے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اس کی توجہ چین سے ملحق اپنی سرحد پر زیادہ مرکوز ہے ۔”دونوں ملکوں میں آنے والے مہینوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ پاکستان میں ان کا انعقاد فروری میں ہو گا۔ بھارت میں تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن پولنگ غالبا اپریل میں شروع ہو جائے گی۔جندال اسکول آف انٹر نیشنل افئیرز میں انٹر نیشنل ریلیشنز کی ایک پروفیسر ، جیوتی ایم پتھانیا کہتی ہیں ، ” جنوبی ایشیا کے ان ملکوں میں ہماری ساری توجہ ووٹ بینک کی طرف ہوتی ہے ۔ اس مرحلے پر کوئی بھی فریق امن کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔ دونوں ہی کشمیر پر جارحانہ انداز میں ہی بات کریں گے اور کشمیر پر اپنے موقف کو سخت تر انداز میں پیش کریں گے۔ "تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے آئین کی شق 370 کی منسوخی کا بیشتر بھارتیوں نے خیر مقدم کیاتھا اور ایک مضبوظ قوم پرست لیڈر کے طور پر مودی کو سراہا تھا اور اب سپریم کورٹ کی جانب سے اس اقدام کی توثیق سے ان کے اسٹیٹس کو مزید تقویت ملے گی۔مودی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں عدالت کے فیصلے کو امید کی ایک کرن اور ایک روشن مستقبل کا وعدہ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنی انتہائی دانشمندی کے ساتھ اس اتحاد کی روح کو تقویت دی ہے جسے ہم بھارتی ہونے کے ناطے محبوب رکھتے ہیں اور ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔کشمیر میں مقامی مبصرین کے مطابق اس فیصلے سے مایوسی پھیل گئی ہے۔کشمیری دارالحکومت سری نگر میں ایک سیاسی تجزیہ کار نور محمد بابا نے کہا کہ،” لوگ خوش نہیں ہیں کیوں کہ کشمیر ی لوگ تاریخی طور پر اپنی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں ۔بہت سے کشمیریوں نے 2019 کے اقدام کو ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علاقے میں زمین کی ملکیت اور مقامی سرکاری ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے کشمیریوں کو حاصل تحفظات اور مراعات کے خاتمے کیایک حربے سے تعبیرکیا ہے۔کشمیر جسے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، اب براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں ہے ، جس نے ایسے نئے قوانین منطور کیے ہیں جن کے تحت کشمیر سے باہر کے بھارتیوں کے لیے علاقے کا مستقل رہائشی بننا ممکن ہو گیا ہے۔تاہم کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انو رادھا بھسین کا کہنا ہیکہ ان اقدامات سے” صرف زمین کا انضمام ہوا ہے کشمیر کے لوگوں کا نہیں ۔انہوں نے کہا کہ آئندہ جو کچھ ہونیوالا ہے اس پر پریشانی اور فکر کا احساس موجود ہے ۔ خطے میں جو ڈیمو گرافک تبدیلی ہو سکتی ہے اس پر علاقے میں حقیقی تشویش موجود ہے۔کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے بھی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیاہے۔سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ بھارت کا فیصلہ صرف جموں اور کشمیر کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے ( آئیڈیا )خیال کیلیے بھی سزائے موت سے کم نہیں ہے۔عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہیکہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ستمبر تک منعقد کرائے جائیں۔تجزیہ کار نور محمد بابا کہتے ہیں ،اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کی سیاسی آوازوں کو اظہار کا موقع مل سکے۔۔۔