یو اے ای ،غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کیلئے تفریحی خدمات وحمایت کا مرکز بن گیا
اب تک پانچ ہزار سے زائد اسرائیلی غزہ میں خونی غسل انجام دینے کے بعد دبئی میں جا کر تفریحی غسل کیلئے ذریعے پذیرائی پا چکے ہیں
اسرائیل کے ان جنگجوئوں سے بڑھ کر جنگجو کے طور پر کام آنے والے فوجیوں کے اس تعطیلات دبئی میں گزارنے کے لئے فنڈنگ ابو ظہبی فراہم کر رہا ہے،رپورٹ اسرائیلی ذرائع ابلاغ
د بئی (ویب نیوز)
گیارہ ماہ قبل جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تو متحدہ عرب امارات نے کھلے لفظوں میں واضح کر دیا تھا اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ان دو طرفہ تعلقات کی نوعیت سٹریٹجک ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ امارات نے جو سوچا سمجھا موقف غزہ میں لڑی جانے والی جنگ کے شروع میں اپنایا تھا وہ آج جب جنگ کا ایک سال مکمل ہونے میں محض چند ہفتے باقی ہیں وہ پھر بھی اس پر قائم ہے۔اس امر کی گواہی اسرائیل کے عبرانی زبان کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے بھی سامنے آئی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ نے اسرائیلی وزارت دفاع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے غزہ میں اسرائیلی تاریخ کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کے لئے منفرد اور خصوصی نوعیت کی تفریحی خدمات اور سہولیات کا اپنے ہاں انتظام کیا ہے تاکہ غزہ میں کئی ماہ تک تعینات رہ کر خون کی ندیاں بہا بہا کر تھک گئے فوجیوں کی تفنن طبع کا کچھ اہتمام ہو اور وہ اپنی زندگیوں کی نارملائزیشن کے لئے امارات میں کچھ وقت خوش خوش کاٹنے کا موقع پا کر وحشیانہ جنگ کے مناظر سے الگ رہ کر تھکاوٹ دور کر سکیں۔عبرانی زبان میں سامنے آنے والی ان رپورٹس میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسے فلسطینیوں کے قتل عام کے مرتکب ہونے والے اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیل کے لئے تفریحی امداد سے تعبیر کیا ہے۔بلا شبہ غزہ کی پٹی پر 11 ماہ کے دوران 40939 کی تعداد میں فلسطینیوں کو قتل کرنے کی اسرائیلی جنگی مشینری کا حصہ رہنے والے فوجیوں کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ ایک طرف وہ اپنے ضمیر کی ملامت سے نفسیاتی الجھنوں سے بچ سکیں، نیز دوبارہ واپس غزہ میں یا مقبوضہ مغربی کنارے میں تعینات ہوں تو ایک نئے عزم اور جذبے سے فلسطینیوں کی تباہی اور قتل و غارتگری کے فرائض سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ماہرین نفسیات تو اس امر کی بھی تائید کریں گے کہ اس قدر بڑی خونریزی جسے دنیا میں نسل کشی قرار دیا جا رہے، اس میں ملوث فوجیوں کی نجی اور گھریلو زندگیوں میں اس خونی رجحان سے پاک زندگی کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں غیر معمولی طور پر ریلیکس کرنے کے کھلے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ جنگ سے نکل کر گھروں یا معاشرے میں جا کر رہیں تو نارملائزیشن کے اثرات لئے ہوئے ہوں۔یقینا یہ سہولت فی الحال ایسے اہم ترین اور قابل بھروسہ تفریحی و سیاحتی مرکز دبئی وغیرہ میں ہی ممکن تھا کہ اڑوس پڑوس میں کسی اہم سیاحتی شہرت کے حامل کسی اور بڑے ملک کے ساتھ تو ابھی اسرائیل کے تعلقات بھی قائم نہیں ہو سکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزارت دفاع اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس سلسلے میں باقاعدہ رابطے میں ہے اوراس تفریحی پروگرام کو بطور خاص اسرائیل کے لئے غزہ اور لبنانی بارڈر پر جنگ لڑ لڑ کر چور ہو چکے فوجیوں کے لئے ڈیزائن کرنے اور اس کی منطوری دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔بتایا گیا ہے کہ اب تک پانچ ہزار سے زائد اسرائیلی غزہ میں خونی غسل انجام دینے کے بعد دبئی میں جا کر تفریحی غسل کے لئے ذریعے پذیرائی پا چکے ہیں۔ اسرائیل کے ان جنگجوئوں سے بڑھ کر جنگجو کے طور پر کام آنے والے فوجیوں کے اس تعطیلات دبئی میں گزارنے کے لئے فنڈنگ ابو ظہبی فراہم کر رہا ہے۔یقینا پوری اسرائیلی فوج کو مرحلہ وار بنیادوں پر ہی سہی دبئی جیسے مہنگے ترین تفریحی و سیاحتی مقام پر ہر قسم کے ریلیکس کے اخراجات فراہم کرنا جنگ زدہ اسرائیلی معیشت کے لئے بہت مشکل ہو سکتا تھا۔ اس لئے اس کی ذمہ داری رپورٹس کے مطابق ابو ظہبی نے اپنے سر لی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اب تک دبئی میں تفریحی ماحول میں ریلیکس کر چکے اسرائیلی فوجیوں میں ایال ہاکشر نامی وہ فوجی بھی شامل ہے جس نے ماہ اپریل کے اواخر میں غزہ میں فلسطینیوں کے بد ترین قتل عام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کا ذکر بعد ازاں رپورٹس اور دستاویزات میں بھی نمایاں رہا۔ہاکشر نے اپنی سوشل میڈیا پرتصویر پوسٹ کی ہے اور خود کو متحدہ عرب امارات کی سیر پر دکھایا ہے۔ وہ خود کو دبئی کے علاقے جمیرہ میں بھرپور مقامی سکیورٹی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں۔لازم ہے کہ اس اسرائیلی سپوت کو سکیورٹی فراہم کرنا مقامی حکام کی ذمہ داری ہے۔اسرائیل کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعلقات کی لاج اس طرح بھی متحدہ عرب امارات نے رکھی ہے کہ جب پوری دنیا بشمول مغرب و امریکہ نے تل ابیب کے لئے خطے میں بڑھی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر اپنی پروازیں معطل کر دیں تو بھی متحدہ عرب امارات نے ہر طرح کے ممکنہ نقصان کی پروا کئے بغیر اپنی پروازیں معطل نہیں کی ہیں تاکہ جو اسرائیلی دنیا میں جگہ جگہ پھنس کر رہ گئے تھے انہیں ان کی منزل مقصود پر اماراتی کمپنیوں جہاز پہنچاتے رہیں۔ ان اسرائیلیوں کی تعداد 150000 بتائی گئی ۔اسرائیل کے کٹر حامی ڈیموکریٹ رکن کانگریس رچی ٹوریس نے اسرائیل کے لئے اپنی پروازیں معطل کرنے والی فضائی کمپنیوں بشمول امریکی اور ملکوں کی مذمت کی تھی تاہم یہ اماراتی کمپنیاں تھیں جنہوں نے اسرائیل کو اس معاملے میں بھی اکیلے نہیں چھوڑا ہے اورتل ابیب کے لئے پروازیں جاری رکھی ہیں نہ صرف یہ بلکہ ابو ظہبی اور امارات کی ان کمپنیوں نے اسرائیل کے لئے اپنی پروازوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کر رہی ہیں تاکہ ابو ظہبی اور تل ابیب کے درمیان ایسے زیادہ فضائی رابطے ہوں کہ فضائی سفر میں رکاوٹوں سے متاثرہ افرادکو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جاسکیں۔واضح رہے اماراتی ایئر لائن نے ابو طہبی اور تل ابیب کے درمیان اپنی پروازوں کا آغاز 2021 میں کیا تھا۔ یہ سلسلہ اس نارملائزیشن کی بنیاد بننے والے ابراہم معاہدے کے آٹھ ماہ بعد ممکن ہوا تھا ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ہے کہ چل سو چل ہے۔ ادھر امریکی فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازوں کا سلسلہ تل ابیب کے لئے اگلے سال 29 مارچ تک معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے امیریکن ایئر لائنز ، ڈیلتا اور یونائیٹڈ نے تل ابیب کے لئے اپنی پروازیں سات اکتوبر کی جنگ شروع ہوتے ہی معطل کر دی تھیں۔ اس کا فائدہ اسرائیل اور امارات دونوں کو یہ ہوا ہے کہ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اس بد ترین جنگ کے دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کی پہلی ششماہی میں اضافہ نمایاں کیا گیا ۔بین الاقوامی خبروں کی ایک ویب سائٹ ابراہم معاہدہ امن انسٹیٹیوٹ کے حوالے سے رپورٹ کرتا ہے کہ اسرائیل اور عرب امارات کی تجارت کا حجم 271،9 ملین ڈالر ماہ جون تک رہا ہے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے کی شرح پانچ فیصد ہے۔ یاد رہے 2020 سے اسی ابراہم معاہدے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش ایسے عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اور اسے نارملائزیشن کا نام دیا گیا تھا۔مسلسل سامنے آنے والے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے بارے میں متحدہ عرب امارات کی پالیسی میں کوئی فرق، تضاد، تصادم یا ہچکچاہٹ نہیں ، جیسا کہ اس کے حکمران خاندان کے بیٹے زید نے بہت پہلے اپنا ذہن بنا لیا تھا: وہ ہر طرح سے اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جہاں تک فلسطینی مزاحمتی تنظیموں حماس وغیرہ کا تعلق ہے وہ خود اسرائیل کے مقابلے میں نام نہاد مشن کو پورا کرنے کے بارے میں زیادہ پرجوش ہیں۔ لبنان سے شائع ہونیوالے الاخبار کے مطابق متحدہ عرب امارات اسرائیلی جرائم میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتا، جیسا کہ اس ہفتے اکیلے اس سطح پر دو واقعات دیکھے گئے۔ پہلا ابوظہبی میں اسرائیلی کمپنی رافیل کی ایک شاخ کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے جو امارات ایئرلائن کے طیاروں کو کارگو طیاروں میں تبدیل کرے گی۔یہ کمپنی امارات میں کام کرتے ہوئے اماراتی سرمائے سے غزہ میں جاری نسل کشی کی وجہ سے قطر کی جانب سے مسترد کر دیے گئے اور مالی طور پر مشکلات کا شکار اسرائیلی تاجر پیٹرک ڈرہی کو بچانے کے لیے کردار ادا کرے گی، جس نے اپنی ملکیتی جائیداد کے نیلام گھر میں براہ راست ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔