امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا، پاکستانی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی
امریکا اور نیٹو اپنی شکست کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ، میرے خیال میں یہ نا انصافی کی انتہا ہے،غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا افغان مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام رہا،اب ہم کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا چاہتے، امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا۔وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں امریکا افغانستان میں برے طریقے سے پھنس چکا ہے، امریکا نے پہلے تنازع کو فوجی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی، افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، افغان تاریخ کا ادارک رکھنے والے بھی کہتے رہے یہ کوئی حل نہیں، جب میں نے کہا افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں تو مجھے طالبان خان کہا گیا، میں نہیں جانتا افغان جنگ کا کیا مقصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، اب ہمارا ملک کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو خودکش حملے ہو رہے تھے، خود کش حملوں سے تجارت اور سیاحت کے شعبے متاثر ہوئے، اب ہم کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا چاہتے، امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا، پاکستان امن میں شراکت دار ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ کوئی رخنہ رہا ہے، امریکا نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں، پاکستان کو اس جنگ میں استعمال کیا گیا، پاکستان یہ محسوس کرتا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، کوئی ایسا ملک ہے جس نے کسی دوسرے ملک کے لیے 70 ہزار جانیں دی ہوں، پاکستان سمجھتا ہے ہم امریکا کی جنگ لڑ کر اپنی معیشت کا نقصان کر رہے ہیں، جو امریکی امداد ہے وہ ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ کم ہے، افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام بھی ہمیں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے امریکا اور نیٹو افواج مذاکرات کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں، جب ڈیڑھ لاکھ فورسز تھیں تب افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا چاہیے تھا، امریکا نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان سمجھے وہ جیت چکے ہیں، اب طالبان کو سیاسی حل کیلئے مجبور کرنا مشکل ہے وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں، جب اشرف غنی صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت امریکا اور طالبان کی بات چیت ہو رہی تھی، پاکستان نے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا۔عمران خان نے کہا کہ صورتحال کے مطابق اشرف غنی کو صدارتی الیکشن نہیں لڑنا چاہیے تھا، اشرف غنی کو الیکشن منسوخ کر کے سب کو سیاسی دھارے میں لانا چاہیے تھا، اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی، طالبان نے اسی وجہ سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا، طالبان امریکا اور افغان لیڈرز سے بات چیت کیلئے تیار تھے اشرف غنی سے نہیں، اسی وجہ سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوتے رہے، افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہئے جس میں تمام فریق شامل ہوں، افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات کا خدشہ ہے، 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے موجود ہیں اور بھی آجائیں گے، پاکستان کی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے یہاں بھی کثیر تعداد میں پشتون ہیں، پشتون اس خانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایسا کبھی نہیں چاہیں گے، اس جنگ سے پہلے القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان نہیں تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، پاکستان نے امریکا کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہو کر اپنی تباہی کی، جس جنگ سے ہمارا تعلق نہیں تھا اس میں 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، اس جنگ میں ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، سویت یونین کے خلاف بھی امریکا نے گروپس تیار کیے، ان کی فنڈنگ کی گئی اور کہا گیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے، 50 مختلف گروپس نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔انہوںنے کہا کہ امریکا اور نیٹو اپنی شکست کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ہیں، میرے خیال میں یہ نا انصافی کی انتہا ہے، 10 ہزار جہادی افغانستان میں داخل ہوئے یہ ناقابل فہم ہے، افغانستان کے پاس اگر شواہد ہیں تو ہمارے حوالے کرے، محفوظ پناگاہوں کی بات کرنے والے بتائیں کہاں ہیں پناہ گاہیں، پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین کیمپوں میں موجود ہیں، اگروہاں کوئی ایسے عناصر موجود ہیں تو کیسے علیحدہ کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہہ رہے ہیں افغانستان اپنے مہاجرین کو واپس لے جائے، افغانستان میں 40 سال سے خانہ جنگی ہے، افغانستان میں ایسی صورتحال نہیں کہ مہاجرین واپس جاسکیں، افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہیں، اگر ان میں طالبان کی حمایت کرنے والے ہیں تو یہ ہم کیسے جان سکتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1500 میل طویل سرحد ہے، سارا علاقہ پہاڑی ہے اسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں، برطانوی راج میں اسی وجہ سے دونوں اطراف سے قبائل تقسیم ہوئے، اب پاکستان نے الزامات ختم کرنے کے لیے سرحد پر باڑ لگانے میں پہلی بار خطیر رقم خرچ کر کے باڑ لگائی، پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90 فیصد مکمل ہوچکا، اب یہاں ایک مکمل سرحد بن رہی ہے جو پہلے نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ زیادتی سے متعلق میرے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادتی کرنے والا ہی قصور وار ہے اور زیادتی سے متاثرہ شخص کبھی اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ انٹرویو میں پاکستانی معاشرے سے متعلق بات ہو رہی تھی اور میں نے پردے کا لفظ استعمال کیا لیکن پردے کا مطلب صرف لباس نہیں بلکہ اسلام میں پردے کا مقصد معاشرے میں بگاڑ کو روکنا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ پردہ صرف عورت کے لیے نہیں بلکہ مرد کے لیے بھی ہے۔ خواتین کے ساتھ بچوں کی اکثریت بھی جنسی جرائم کا شکار ہو رہی ہے۔ اسلام خواتین کو عزت و احترام دیتا ہے اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے جبکہ مغرب کے مقابلے میں پاکستان میں زیادتی کی شرح بہت کم ہے۔