ہم امریکہ کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی طویل المدتی، وسیع البنیاد اور جامع شراکت داری استوار کرنا چاہتے ہیں
افغانستان کے موجودہ حالات کے باعث پاکستان میں مہاجرین کا سیلاب آئے گا،مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتے
تحقیقات مکمل کرنے کیلئے افغان سفیرکی بیٹی کو تعاون کرنا ہوگا،پاکستان نے نجف اور کربلا میں قونصل خانے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے
پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کے لئے ٹرائیکا پلس کے کردار کو نہایت اہم سمجھتا ہے
افغانستان امن کانفرنس ملتوی ہوئی تھی معطل نہیں، اس کانفرنس کی نئی تاریخوں کا اعلان جلد کیا جائے گا
عالمی برادری، او آئی سی اوراقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ترجمان دفتر خارجہ کی بریفنگ
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
ترجمان دفترخارجہ نے کہا ہے کہ ہم شروع سے افغانستان میں امن کے قیام کے حامی ہیں، پاکستان اور امریکہ دونوں افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے خواہاں ہیں، افغانستان کے مسئلے کا واحد حل سیاسی حل ہی ہے ،پاکستان کو افغانستان میں تیزی سے ابتر ہوتی صورتحال پرتحفظات ہیں اوربھارت نے ہمیشہ افغانستان میں اسپائلر کا کردارادا کیا، لاہور جوہر ٹائون اور داسو واقعات میں بھارت ملوث ہے، افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال، را اور این ڈی ایس نیکسس پر ڈوزئیر کو اقوام متحدہ میں بھی پیش کریں گے،عالمی برادری، او آئی سی اوراقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ہم امریکہ کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی طویل المدتی، وسیع البنیاد اور جامع شراکت داری استوار کرنا چاہتے ہیں،پاکستان نے نجف اور کربلا میں قونصل خانے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔جمعہ کوترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان سے امریکا کے ذمہ دارانہ انخلا کی بات کی، پاکستان کو افغانستان میں تیزی سے ابترہوتی صورتحال پرتحفظات ہیں، 2001سے اب تک ہم نے 80ہزارسے زائد جانوں کا نقصان اٹھایا، کوئی بھی ملک ہم سے زیادہ افغانستان میں قیام امن کا حامی نہیں، لیکن بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں اسپائلرکا کردارادا کیا۔ افغانستان کے موجودہ حالات کے باعث پاکستان میں مہاجرین کا سیلاب آئے گا۔ پاکستان مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں افغانستان میں امن دیکھنا چاہتے ہیں،ہم دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں،پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون پر مبنی تعلقات کی تاریخ ہے،افغانستان میں امن کے حصول کے عمل سمیت متعدد کلیدی امور پر دونوں ممالک کا نکتہ نظر اور مفادات یکجا ہیں،ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے خواہاں ہیں،دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ افغان قیادت میں افغانوں کو قبول عمل کے ذریعے سیاسی تصفیہ ہو،دونوں ممالک افغانستان میں اجتماعیت کا حامل، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں،ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ برس فروری میں پاکستان نے امریکہ طالبان امن معاہدہ کرانے میں سہولت کاری کا کلیدی کردار ادا کیا،ہم امریکہ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں،خطے اور دنیا میں امن وخوش حالی کے مشترک مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات چاہتے ہیں،ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ پاکستان کو کسی دوسرے ملک کے پہلو سے نہ دیکھا جائے،دونوں ممالک کے تعلقات کو تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہئے،زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی طویل المدتی، وسیع البنیاد اور جامع شراکت داری استوار کرنا چاہتے ہیں،پاکستان اپنے قومی مفاد میں تمام فیصلے کرے گا اور پالیسیز پر عمل پیرا ہوگا،اپنے قومی مفاد میں وہ فیصلے کریں گے اور پالیسیز پر عمل پیرا ہوں گے جو خطے اور دنیا میں امن وخوشحالی کا ذریعہ بنیں۔ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ نے بھارت کی منظم ریاستی پاکستان مخالف پالیسی کوبے نقاب کیا۔ ہم شروع سے افغانستان میں امن کے قیام کے حامی ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کے عسکری حل نہ ہونے کی بات کی۔ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل سیاسی حل ہی ہے۔ باالاخرافغانوں نے ہی اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ افغان فریقین کے درمیان بات چیت کے لیے ایک میکنزم موجود ہے۔ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ افغانستان امن کانفرنس ملتوی ہوئی تھی معطل نہیں۔ اس کانفرنس کی نئی تاریخوں کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی کا بیان ہماری تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تحقیقات مکمل کرنے کے لئے افغان سفیرکی بیٹی کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کے انسانی حقوق کمشن کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، وفد نے کشمیری مہاجرین، سول سوسائٹی سے بھی ملاقاتیں کیں، وفد او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرے گا۔ عالمی برادری، او آئی سی اوراقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔عراق کے وزیر خارجہ ڈاکٹر فواد حسین نے پاکستان کا دورہ کیا، ملاقاتوں میں باہمی تعلقات، علاقائی مسائل، افغانستان کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، عراق کا دورہ کرنے والے پاکستانی زائرین کے ویزا معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا اورپاکستان نے نجف اور کربلا میں قونصل خانے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔افغانستان پر ایمبیسڈر محمد صادق ٹرائیکا پلس ملاقات اور علاقائی اجلاس میں شرکت کے لیے دوحہ گئے، ہم نے افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال، را اور این ڈی ایس نیکسس پر ڈوزئیر پیش کیا ہے۔ اس ڈوزئیر کا عالمی برادری کے ساتھ تبادلہ کیا گیا تھا، ہم اس ڈوزئیر کو اقوام متحدہ میں بھی پیش کریں گے۔ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ11 اگست کو دوحہ میں ٹرائیکا پلس جلاس منعقد ہوا ، اس اجلاس میں پاکستان، امریکا، چین اور روسی فیڈریشن کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ افغانستان پر ایک علاقائی اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر غور کیاگیا۔اجلاس میں بین الافغان مذاکرات کا عمل تیز کرنے کے طریقوں پر غور کیاگیا،اجلاس کا مقصد افغانستان میں چاردہائیوں سے جاری تنازعے کا خاتمہ اور اجتماعیت کا حامل سیاسی حل تلاش کرنا ہے،ٹرائیکا پلس کے اجلاس میں افغانستان حکومت کے نمائندے ڈاکٹر عبداللہ اور طالبان وفد کے سربراہ ملا برادر کی ملاقات بھی ہوئی،ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ٹرائیکا پلس میں شامل ممالک نے افغانستان کو چار پیغامات دئیے ہیں،پہلا پیغام ہے کہ افغانستان میں تشدد میں کمی کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،دوسرا پیغام ہے کہ افغانستان میں تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں،تیسرا پیغام ہے کہ افغانستان امن پلانز ترجیحی بنیادوں پر سامنے لائے، تاکہ سیاسی روڈ میپ پر پیش رفت ہو،چوتھا پیغام ہے کہ تمام فریقین انسانی حقوق کا احترام کریں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث نہ ہوں،ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کے لئے ٹرائیکا پلس کے کردار کو نہایت اہم سمجھتا ہے،افغانستان میں امن عمل کی رفتار تیز کرنے کے لئے اجتماعی کوشش کے طور پر ٹرائیکا پلس میںپاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ نے کہا ہے کہ اتحادی افواج کی واپسی افغانستان کے حالات سے منسلک ہے۔ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سمجھوتہ موجود ہے۔ہمارے درمیان مسائل کے حل کے لئے میکنزم موجود ہے۔