کراچی (ویب نیوز)
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران شیئرز کی قیمتوں میں کمی ہوئی جب کہ معاشی تجزیہ کاروں نے مندی کے رجحان کی وجہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی گرتی خطرناک سطح اور وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بیان سے پیدا ان خدشات کو قرار دیا کہ حکومت نجی بینکوں سے ڈالر ضبط کر سکتی ہے۔کے ایس ای 100 انڈیکس 503 پوائنٹس یا 1.23 فیصد کمی کے بعد 40 ہزار 505 پوائنٹس پر بند ہوا، کاروبار کے دوران دوپہر 2 بجے تک انڈیکس میں 571 پوائنٹس یا 1.39 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔چیف ایگزیکٹو فرسٹ نیشنل ایکویٹیز لمیٹڈ علی ملک نے کہا کہ اسحق ڈار کے اس بیان کی وجہ سے شیئرز کی قیمتوں میں کمی ہوئی کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر نہیں بلکہ 10 ارب ڈالر ہیں کیونکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر بھی ملک کے ہیں۔اس سے قبل کئی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ قرضوں کی ادائیگی کے بعد غیر ملکی ذخائر کم ہو کر 4 ارب 50 کروڑ ڈالر پر آگئے ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔علی ملک نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے 1998 میں اپنے گزشتہ دور حکومت میں امریکی ڈالر اکانٹس منجمد کردیے تھے اور اسحق ڈار کے حالیہ بیان سے یہ خدشات پیدا ہوئے کہ وہ دوبارہ ایسا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بے یقینی مارکیٹ پر دبا ڈال رہی ہے، جنیوا کانفرنس میں کتنی رقم جمع ہوگی اس کے بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں ہے، اکاونٹس منجمد ہونے کی صورت میں ترسیلات زر میں مزید کمی آئے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہو گیا ہے اور مارکیٹ میں بے یقینی اور افراتفری ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سابق ڈائریکٹر ظفر موتی نے علی ملک کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر اکانٹس منجمد کیے جانے کی خبریں مارکیٹ کو نیچے لے جارہی ہیں، عوام اور بروکریج ہاسز پریشان ہیں اور یہ پریشانی مارکیٹ میں نظر آرہی ہے۔دوسری جانب انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ایکویٹی رضا جعفری نے نوٹ کیا کہ گردشی قرضوں کے متوقع حل پر انرجی اسٹاک میں اضافہ ہوا، تاہم دوسرے شعبوں خاص طور پر ٹیکنالوجی اور بینکنگ سیکٹر کے شیئرز کی قیمت میں کمی آئی۔رضا جعفری نے کہا کہ دوطرفہ امداد خاص طور پر سعودی عرب سے مالی معاونت فوری طور پر درکار ہے اور اس سے غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے اور رجحان کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ملک اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے، 30 دسمبر 2022 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 8 سال کی کم ترین سطح 5 ارب 57 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے، یہ رقم 3 ہفتوں کی درآمدات کے برابر ہے، بعد ازاں میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ 2 غیر ملکی بینکوں کو قرض کی ادائیگی کے بعد ذخائر مزید گر کر 4 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے۔اس کمی کے بعد دوست ممالک سے مزید قرض لیے بغیر غیر ملکی قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔وزیر خزانہ اسحق ڈار ان دنوں جنیوا میں موجود ہیں جہاں ان کی آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات متوقع ہے تاکہ فریقین کے درمیان پروگرام بحالی کے لیے حل طلب امور پر بات چیت کی جاسکے۔یاد رہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 2019 میں 6 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا اور گزشتہ برس اس میں مزید ایک ارب ڈالر کا اضافہ کردیا گیا تھا۔آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے بعد پاکستان کو ایک ارب 18 کروڑ ڈالر جاری ہوں گے جو التوا کا شکار ہیں، ابتدائی طور پر 2 ماہ تک مسلم لیگ(ن) کی سربراہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے عالمی ادارے کی مخصوص شرائط ماننے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا تھا اور اختلاف تاحال ختم نہیں ہوسکا ہے۔۔