سپریم کورٹ نے انتخابات التوا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، آج (منگل کو) سنایا جائے گا

عدالت ہی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھاسکتی ہے، لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال

جسٹس فائز عیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی، ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے، رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے

ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا

مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں

پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں، بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، جو منگل کو سنایا جائے گا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ عدالت ہی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھاسکتی ہے، لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی اور عرفان قادر، پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک طرف بائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بھی بن رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔کامران مرتضی نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔اس پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے، اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر خیبرپختونخوا کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راونڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحیی آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔اس دوران عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے، جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا نہیں تھا، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ازسرنو تشکیل میں تمام پانچ نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا انتظامی نہیں جوڈیشل حکم تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحیی آفریدی نے خود کہا کہ وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں،کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 4 آرا کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے، اگلے نقطے پر آئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زیر حاشیہ سطر میں بھی لکھا ہے کہ 2 ججز کی آرا ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بینچ سے الگ ہوجائیں، اس پر جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں،184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، سرکلر میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں نا کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کیہر مقدمیمیں ہوتے ہیں۔جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کے لیے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کاروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں، ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا موقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز عیسی فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسی مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے، تمام 15 ججز مختلف آرا اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسی کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3 روز میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا، ایک 2 رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورت حال سب کے لیے ہی مشکل ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر اِن کیمرا سماعت کی جائے، اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لچھ وجوہات بتائی ہیں۔دوران سماعت سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورتحال بتا دیں، فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں، کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں۔سیکریٹری دفاع نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں، کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔اس دوران عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ِان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا موقف ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو کومبیٹ والے اہلکار درکار ہیں؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیںگے ، کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں  گے، آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، پبلک نہیں ہونے چاہئیں، نیشنل سیکیورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کے لیے کومبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئے گا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن علاقوں میں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔عدالت نے سیکریٹری دفاع سے ایک گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔سیکریٹری دفاع نے رپورٹ جمع کروانے کے لیے منگل تک کی مہلت مانگ لی جو عدالت نے منظور کرلی۔دریں اثنا سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی، سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے، ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاونٹ اور مالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے، ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا، 170ارب روپے جمع کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے گئے۔جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فیصد فرق پڑے گا، کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا، اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا، اس پر ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی، ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، 5 فیصد تنخواہ 3 اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کون سا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر ڈائس پر آگئے، انہوں نے عد الت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت اپنا ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتادیں، ہمار موقف سن لیں پھر سیکریٹری سے بات کرلیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کرلیا ہے، عرفان قادر نے کہا کہ عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں۔اس دوران کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ پہلے 5 ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے پر مشتمل ہے، آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، 20 ارب روپے 0.02 فیصد زیادہ نہیں ہے، خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی 4.97 فیصد ہے، 20 ارب روپے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریونیو بڑھانے میں زیادہ وقت لگے گا، کس شعبے سے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں؟اسد عمر نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کیے ہیں،ترقیاتی اسکیموں کے لیے حکومت نے مزید 8 ارب روپے ترقیاتی اخراجات میں شامل کیے ہیں، کیسے ممکن ہے 700 ارب روپے کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن پہلے ہو جائیں تو پورا 450 ارب روپیہ بچ سکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے۔عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کیوجہ اخراجات میں کمی ہے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آپریشنل اخراجات اور تنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آینی تقاضہ پورا کرنے کے لیے آرٹیکل 254 ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو لیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کتنی دیر دلائل دیں گے، عرفان قادر نے جواب دیا کہ میں کوشش کروں گا 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں۔عرفان قادر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہوجاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے، فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے، انہوں نے شعر پڑھا: پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔عرفان قادر نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے، فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو، الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیے، فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازع کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے، فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔عرفان قادر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں ہے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں، ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی، قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں، قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں یے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں، ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی، قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے حکم نامے میں کہا کہ عوام کی بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ تمام ازخود نوٹس کیسز کی سماعت روک دی جائے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیسز کی سماعت روکنے میں عوام کی بھلائی نہیں ہوتی کیسز کی سماعت کرنے اور ان پر فیصلہ کرنے سے بھلائی ہوتی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دے دی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کے لیے ہے، ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے۔وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مکالمہ کیا کہ میں سوشل میڈیا کی بات کر رہا تھا، اس وقت جناب چیف جسٹس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہیں، چیف جسٹس کے حق میں درخواستوں پر دستخط ہورہے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر کو جواب دیا کہ ہم مولا سے خیر مانگتے ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں اندرونی تنازع کو حل کیا جائے، 184/3 تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے، جسٹس قاضی فائز عیسی سینئر جج ہیں، ان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے، ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے، جسٹس فائز عیسی ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں، رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاوں گا۔عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ کبھی کبھی تعریف کردیا کریں، سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 6 ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں، سابق وزیر اعلی پرویز الہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی، پرویز الہی نے کہا کہ فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی، پنجاب اسمبلی نہ وزیر اعلی نے توڑی نہ گورنر نے۔عرفان قادر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو اس بینچ میں بھی شامل نہ کیا جاتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔وکیل عرفان قادر نے مزید کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟ عرفان قادر نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی۔وکیل عرفان قادر نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2 ججز کے نوٹ کے خلاف ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا۔بعد ازاں الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ بات نہ سن کر میری عدالت میں تذلیل ہو رہی ہے، مزید اپنی تذلیل نہیں کراوں گا، جس پر چیف جسٹس نے اکرام شیخ کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل تحریری طور پر دے دیں۔وکیل اکرم شیخ نے بتایا کہ عدالت کی معاونت کے لیے پیش ہو رہے ہیں، کوئی پارٹی مجھے غیر قانونی کام کرنے کا کہے تو کیا میرا اپنا دماغ نہیں کہ فیصلہ کرسکوں، عدالت کا بے حد احترام کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ صاحب آپ کے ساتھ کامران مرتضی اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں، حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے، آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے، سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے، مسلم لیگ (ن) کے ٹوئٹر اکاونٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کردیا۔وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟ مسلم لیگ (ن) سے کوئی فیس نہیں لی، عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے، وکیل مسلم لیگ (ن) اکرم شیخ نے بتایا کہ خود کو مزید شرمندہ نہیں کرسکتا۔کامران مرتضی نے کہا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا، سیاسی جماعت کا بھی وکیل ہوں، مفادات کے ٹکراو کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔پی ٹی آئی وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے کہ کہا گیا لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں مقدمات زیر التوا ہیں، کسی ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع دستاویزات کب تک دیں گے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آج کسی بھی وقت عدالت کو دستاویزات دے دیں گے، گورنر خیبر پختونخوا کے وکیل پیروی سے معذرت کر چکے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں خیبر پختونخوا کا ذکر نہیں ہے۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے جواب الجواب شروع کرتے ہوئے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر کسی نے بات نہیں، الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سجیل سواتی نے سیکشن 58 کا حوالہ دیا تھا، الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا، الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا، آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے۔علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں؟ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے ان کے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا، اکرم شیخ کے موکل کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اٹارنی جنرل نے اس نکتے پر گفتگو نہیں کی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے، اس نکتے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا، خیبرپختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے، کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟ میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا، بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے، ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے، آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی نے ایسا نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 6 ججز والی بات آپ نے اور عرفان قادر نے کی، عدالت نے بات سنی، اس پر ردعمل نہیں دیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں، بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔بعد ازاں سپریم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جو منگل کو سنایا جائے گا۔سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی گئی۔ سماعت کی اہمیت کے پیش نظر سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے، کسی غیر متعلقہ شخص کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے بھی خصوصی ہدایت جاری  کئے۔

#/S