نیویارک (ویب نیوز)
تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ آر سی نے بدھ کے روز جو نئی رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا بھر میں ریکارڈ 110 ملین افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس میں اس قدر اضافے کی وجہ یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ تو پہلی سے ہی جاری تھی کہ اسی دوران سوڈان میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا اور بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔تازہ رپورٹ میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ سن 2023 میں بھی عالمی سطح پر جبری نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور تنازعات نیز آب و ہوا سے متعلق افراتفری کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 19.1 ملین کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امیر ممالک کے بجائے دنیا کے غریب ممالک غیر متناسب طور پر بے گھر افراد کی میزبانی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔بے گھر ہونے والے اکثر لوگ قریبی ملک پہنچ جاتے ہیں، چاہے وہاں حالات صرف معمولی حد تک ہی کیوں نہ بہتر ہوں۔ رپورٹ کے مطابق بہت سے مغربی ممالک اپنے آبائی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے لوگوں کو پناہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلپو گرانڈی نے کہا کہ اس مسئلے کے بغیر کسی حل کے ”نتیجہ تباہی ہے اور بے گھر ہونے والے ان لاکھوں لوگوں میں سے ہر ایک کے لیے اذیت ہے، جو زبردستی اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے ہیں۔” رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ سن 2022 کے آخر تک دنیا بھر میں تقریبا 4.4 ملین افراد بے وطن یا غیر متعین قومیت کے حامل تھے، جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کی سن 2022 سے متعلق جبری نقل مکانی کے عالمی رجحانات کی رپورٹ میں ایسے 35.3 ملین بے گھر افراد کو پناہ گزینوں کے طور پر درج کیا گیا تھا، جنہوں نے حفاظت کی تلاش میں بین الاقوامی سرحدیں عبور کیں۔ اس کا ایک بڑا حصہ یعنی 58 فیصد یا 62.5 ملین لوگوں کو اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑا۔سن 2022 میں یوکرین کی جنگ بے گھر ہونے کی بنیادی وجہ تھی کیونکہ اس کی وجہ سے پناہ گزینوں کی سن 2021 کے اواخر میں محض 27,300 کی تعداد بڑھ کر سال کے آخر تک 5.7 ملین تک پہنچ گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پناہ گزینوں کا سب سے بڑا اخراج تھا۔اس کے ساتھ ہی کولمبیا اور پیرو نے یہ اطلاعات دیں کہ بین الاقوامی تحفظ کے لیے وینزویلا سے بھی بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔ایک رپورٹ میں اس بات کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایران میں افغان مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امیر ممالک کے بجائے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک بے گھر لوگوں کی میزبانی کا بوجھ زیادہ اٹھا رہے ہیں۔ عالمی سطح کی مجموعی گھریلو پیداوار میں 1.3 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود، دنیا کے 46 کم ترقی یافتہ ممالک مجموعی مہاجرین کی تعداد کی 20 فیصد سے زیادہ کی میزبانی کر رہے ہیں۔گرانڈی نے اس معاملے میں ان ممالک کی مزید بین الاقوامی حمایت اور ذمہ داریوں کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا، جہاں بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کی جا رہی ہے۔تاہم اس رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بے گھر ہونے پر مجبور ہونے والوں میں سے بہت سے لوگ رضاکارانہ اور محفوظ طریقے سے واپس آنے کے قابل بھی ہوئے ہیں، جو ایک امید کی کرن ہے۔سن 2022 میں 339,000 سے زیادہ پناہ گزین رضاکارانہ طور پر 38 ممالک میں اپنے گھروں کو واپس ہوئے، جب کہ 5.7 ملین اندرونی طور پر بے گھر ہونے لوگ ایتھوپیا، میانمار اور شام میں اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔