اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

معروف کشمیری رہنما اور برطانوی ہائوس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد نے کہا ہے کہ جب تک بھارت کے اندر پالیسی کی حقیقی تبدیلی نہیں آتی اور سوچ تبدیل نہیں ہوتی اور  مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے آرٹیکل 370اورآرٹیکل35-Aکو بحال نہیں کیا جاتا اس وقت تک  پاکستان کو اپنے ہائی کمشنر کو بھی واپس نہیں بھجوانا چاہیئے۔ ان خیالات کا اظہار لارڈ نذیر احمد نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس رہے اور آزاد کشمیر پاکستان کے پاس رہے اس فارمولے کی بات کرنا ابھی قبل ازوقت ہے ، ہم ایسا کرنے ہی نہیں دیں گے ، جب تک کشمیری   اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے  مطابق، صاف شفاف  آزادانہ طریقہ سے رائے شماری کے زریعہ اپنے مستقبل کا فیصلہ  نہیں کرتے  اس وقت  تک یہ کہنا کہ وہ آپ کا   یہ ہمارا ، یہ کوئی گڑ تو نہیں رکھا ہوا کہ آپ ان کو بانٹ کر دے دیں گے۔ گلگت  بلتستان ، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور لداخ کی16،17یا18ملین کی آبادی   استصواب  رائے کے زریعہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔  میرے سیاسی اختلافات پاکستان میںساری سیاسی جماعتوں سے ہیں تاہم اگر میں عمران خان سے یہ کہوں کہ وہ اپنی تھوڑی سی ٹون نرم کر لیں اور نواز شریف سے کہوں کہ آپ بھی اپنی سختی میں تھوڑی سی نرمی کر لیں کیونکہ پاکستان کے نوجوان اور پاکستان کی قوم سیاست سے نفرت کرنا شروع ہو گئے ہیں اگر ساری جماعتیں صلح کرسکیں تو میں حاضر ہوں ،میں  نے  پہلے بھی آپ کے گھروں میں آکر آپ کی عزت بھی کی اور احترام بھی کیا اور اب بھی کرنے کے لئے تیار ہوں ، اگر آپ پاکستان کے لئے اپنی انا  کو چھوڑ کر صلح کر لیں تو یہ بڑی بات ہو گی۔  لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ الجزیرہ کے مطابق  متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان  تنائو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مووی نے وزیر اعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ، پھر لائن آف کنٹرول پر تنائو کم ہوا اور چیف آف آرمی اسٹاف  جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو تقریر کی  اور دیگر تقریریں ہوئیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ چاہیں آپ سمجھ لیں کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ یا امریکہ کی اس خطہ میں نئی پالیسی اپنانا چاہتے ہیں یا یہ بھی سمجھ لیں کہ بھارت کی لداخ میں اتنی پٹائی ہوئی، چینی فوج نے جسمانی طور پر بھارتیوں کو مارا اور پاکستان کی ایئرفورس کو میں سلام پیش کرتا ہوں جس طرح انہوں نے پاکستان کا دفاع کیا، پاک فوج نے یہ ثابت کیا کہ بھارتی فوج تعداد میں زیادہ ہو سکتی  ہے لیکن لڑنے میں پاکستان  سے کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہندوتوا، آر ایس ایس بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے اپنی  کوشش کی کہ پاکستان    کو دبائیں اور بار، بار کہا کہ وہ کشمیر کو فتح کریں گئے  لیکن بھارت کو پتا چلا کہ پاکستان اندر بھی نہیں آنے دے گا بلکہ وہ بھارت کے اندر جا کر اس کو گھس کر ماریں گے، اس سے بھی ان کو سبق ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی شرح نمو جو بہت بڑھ رہی تھی وہ کم ہو کر منفی  میں آگئی ہے۔  جو کمپنیاں بھارت میں کاروبار کرنا چاہتی تھیں وہ پریشان ہیں کہ اگر بھارت ناکام ریاست بن گیا تو ان کا کیا ہو گا ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ پنگا لے رکھا ہے۔ بھارت فاشسٹ امن کے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ ان کی سیاست ہی لڑائی جھگڑا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہندوتوا آر ایس ایس فاشسٹ حکومت جب تک اپنے عزائم  ترک نہیں کرتی اس وقت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو آگے بڑھانا ممکن نہیں۔بھارت نے آرٹیکل 370اورآرٹیکل 35-Aکے خاتمہ کے بعد ڈیڑھ لاکھ سے زائد  بھارتیوں کو مقبوضہ کشمیر کی شہریت دی ہے اور انہیں مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق ملا ہے جب تک بھارت  اس کو واپس نہیں لیتا اور آرٹیکل370اورآرٹیکل35-Aکو بحال نہیں کرتا اور جو لوگوں کا نقصان ہوا ہے اس کاازالہ نہیں کرتا  اس وقت تک پاکستان کو بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات بحال نہیں کرنے چاہیں۔فاشسٹ ہندو کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کرسکتا۔  ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی پالیسی بڑی واضح ہے وہ سی پیک منصوبہ کی حمایت کرتے ہیں۔لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ میں نے 10سال لیبر پارٹی میں خدمات انجام دیں، 10سال کونسلر رہا اور22سال ہائوس آف لارڈز کا رکن رہا جس کے بعد میں نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور مجھے دوبارہ ہائوس آف لارڈز میں جانے کی خواہش نہیں ۔  لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ یوغر مسلمانوں کے معاملہ پر پاکستان کے سیاستدان خاموش ہو جاتے ہیں۔ میرے لئے وہ مسلمان جو مظالم سہہ رہے ہیں وہ زیادہ اہم ہیں، کہاں گئے ہمارے مولوی، سکالرز اور لوگ جو بابری مسجد کی شہادت پر احتجاج کررہے تھے اور وہ ہونا بھی چاہیئے تھا لیکن آٹھ ہزار مساجد کو شہید کیا گیا اور 30لاکھ مسلمانوں کو چین نے کیمپس میں رکھا ہوا ہے ، بچوں کو اور ہمارے بہن ، بھائیوں کو زبردستی سور کھلایا جاتا ہے اور ان کو زبردستی شراب پلائی جاتی ہے تا کہ وہ دین سے ہٹ کر نارمل چینی زندگی اور کمیونسٹ سوچ پر لانا چاہتے ہیں۔