حکومت پاکستان، حکومت آزاد جموں و کشمیر اور واپڈا کے مابین نیلم و جہلم پن بجلی معاہدے پر  تاحال دستخط  نہیں ہو سکے

حکومت پاکستان اور حکومت آزاد جموں و کشمیر کے مابین  منگلا ڈیم کا معاہدہ  1967میں طے پایا تھامحکمہ توانائی وآبی وسائل

معاہدہ 1967  کی  دستاویزات  خفیہ نہیں ہیں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے پاس موجود ہیں۔ ترجمان حکومت

مظفرآباد (ویب نیوز)

محکمہ توانائی وآبی وسائل نے واضح کیا ہے کہ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد جموں و کشمیر کے مابین  منگلا ڈیم کا معاہدہ 1967 میں طے پایا تھا اسی معائدے کے تسلسل میں 2003 کا منگلا ڈیم ریز نگ ایگریمنٹ اور 2022کاواٹر یوز چارجز(رائیلٹی) کی شرح میں اضافے کا ترمیمی معاہدہ طے پایا  ہے ۔ ترجمان محکمہ توانائی وآبی وسائل نے کہا ہے کہ منگلا ڈیم کے  معاہدے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دستاویزات درست نہیں ہیں ۔ ان دستاویزات میں شامل ایک غیر دستخط شدہ مکتوب اور اُس پر درج تاریخ (10.10.1962) سے یہ حقیقت بخوبی عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ ناقابلِ انحصار ہے اور اس کے ہمراہ دکھائے گئے چند صفحات منگلا ڈیم معاہدہ کی عکاسی نہیں کرتے۔ سندھ طاس کے معاہدہ کے تحت عالمی بینک کے تعاون سے دریائے سندھ اور دریائے جہلم پر تعمیر ہونے والے دو بڑے کثیر المقاصد آبی منصوبوں میں سے ایک کے آزاد جموں و کشمیر میں واقع ہونے کے باعث اس پر دونوں حکومتوں کے درمیان بات چیت و خط و کتابت 1962، جب اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھاسے لیکر 1967 میں منصوبے کی تکمیل تک جاری رہی۔ سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے صفحات بظاہر ٢٦٩١ میں ترتیب دئیے گئے ابتدائی مسودے اور اس کے ہمراہ ارسال کئے گئے کورنگ لیٹر کی بعد میں بنائی گئی نقل ہے۔ جس میں دوران مشاورت بہت سی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ ترجمان کے مطابق معاہدہ 1967  کی مصدقہ دستاویزات آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے متعدد محکمہ جات کے پاس موجود ہیں، جنہیں ریاست کے مفاد میں وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر اس معاہدے کی متعلقہ دفعات کے حوالے سے معاملات کو اٹھایا اور طے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ معاہدہ نہ تو خفیہ دستاویز ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا میں پائے جانے والے تاثرات حقیقت سے مطابقت رکھتے ہیں۔اسی معاہدے کے تسلسل میں2003 کا منگلا ڈیم ریز نگ ایگریمنٹ اور 2022کاواٹر یوز چارجز(رائیلٹی) کی شرح میں اضافے کا ترمیمی معاہدہ طے پائے ہیں۔یہ تصور کیاجانا قطعی طور پر درست نہیں ہوگا کہ ان میں سے کسی معاہدے کی دستاویزات آزاد حکومت کی دسترس میں نہیں ہیں۔واضح رہے کہ  آزادکشمیر میں بننے والے پن بجلی کے  ہر منصوبے، خواہ وہ  پبلک سیکٹر میں تعمیر کیاگیا ہو یا پرائیویٹ سیکٹر میں، کی نسبت باقاعدہ معاہدات کیئے جاتے ہیں اور انہی کے تحت  یہ منصوبے رو بہ عمل ہوتے ہیں۔پبلک سیکٹر میں وفاقی حکومت کی اتھارٹی (پاکستان واپڈا) کی طرف سے لگائے گئے نیلم و جہلم پن بجلی منصوبے کے سہہ فریقی معاہدے پر دستخط میں بوجوہ تاخیر واقع ہوئی ہے تاہم اس معاہدے پر دستخطوں کا مرحلہ قریب آچکا ہے۔