مودی حکومت کی لاپرواہی، کروڑوں شہریوں کی جان کو خطرہ

نئی دہلی (ویب ڈیسک)

بھارت میں 15 روز کے دوران دوسری مرتبہ 4 لاکھ سے زائد کورونا کیسز سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارت میں 4 لاکھ 6 ہزار 628 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔30 اپریل کو کورونا کے 4 لاکھ 2 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے تھے،  بھارت میں ایک روز کے دوران سب سے زیادہ 3800 سے زائد افراد کورونا وائرس سے دم توڑ گئے۔بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 2 کروڑ 10 لاکھ سے بڑھ گئی ہے جب کہ 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کورونا کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔بھارت میں عالمی وبا کورونا وائرس کی دوسری لہر کی شدت نے جہاں وہاں کی عوام کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہیں اس وبا سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث ڈاکٹرز خود کشیاں کرنے لگے ہیں۔ جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے ایک نجی اسپتال  میں کورونا مریضوں کا علاج کرنے والے ایک 35 سالہ ڈاکٹر نے گزشتہ دنوں خودکشی کی تھی جو سخت ذہنی دبا وکا شکار تھے۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں ڈاکٹروں کی ایک تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت میں کورونا وبا پھوٹنے کے بعد سے اب تک تقریبا 800 سے زائد ڈاکٹروں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے ڈاکٹروں پر بہت جسمانی اور اعصابی دباو ہے۔ ڈاکٹرز مسلسل 15، 15 دن ڈیوٹیاں سر انجام دینے میں مجبور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز اپنے قریبی رشتہ داروں سے مسلسل دور رہنے کی وجہ سے بھی سخت ذہنی اضطراب کا شکار ہیں ،علاوہ ازیں بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، آپ اس کا اندازہ ایسے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے 15 دنوں کے اعداد وشمار 50 لاکھ کو چھو رہے ہیں۔ کووڈ سے ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہوئی ہے۔ برازیل دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔ لیکن دوسری لہر میں ایک تہائی اموات صرف بھارت میں ہی ہو رہی ہیں۔جیسے ہی کووڈ کی پہلی لہر رکنے لگی تھی، مودی حکومت نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بند کردیں۔ حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے کروڑوں شہریوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ دنیا کی نظر میں ویکسین تیار کرنے والے ممالک میں بھارت سرِفہرست ہے۔ لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے آج بھارت ہی میں ویکسین دستیاب نہیں ہیں۔ مودی حکومت نے ویکسین سے استفادہ کرنے والوں کے دائرہ کار میں توسیع کردی ہے۔ ماہرین صحت نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مرکز نے 18-45 سال کی عمر کے لوگوں کے لئے ویکسین شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ریاستوں کو ویکسین کی قیمتوں سے متعلق منجھدھار میں چھوڑ دیا ہے۔ ویکسین کی قیمت کا فیصلہ اب کمپنیاں کر رہی ہیں،بھارتی سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ ہم نے کورونا کے معاملے میں عالمی حفاظتی ٹیکوں کی پالیسی کو کیوں ترک کیا۔ ملک کے غریبوں کو یہ ویکسین کیسے ملے گی۔ وہ اس کی قیمت کیسے ادا کرسکیں گے؟ عدالت کے مطابق، یہ زندگی گزارنے کے آئینی حق کے خلاف ہے۔ حکومت کو کم از کم نیند سے بیدار ہونا چاہئے تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ کس طرح بھارتی شہریوں کو کورونا کی وبا سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔مودی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس 2000 کووڈ اسپتال ہیں، جن میں ریاستیں اور مرکز بھی شامل ہیں۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ ہم کووڈ کے مریضوں کے علاج کے لئے تین درجے کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن جس طرح سے اعداد و شمار 35 لاکھ کو عبور کرنے جارہے ہیں، اس سے کہا جاسکتا ہے کہ صحت عامہ کا پورا ڈھانچہ پہلے ٹھپ ہوا اور اب مسمار ہوگیا ہے۔اب تک پوری دنیا میں 116 کروڑ ویکسین کی خوراکیں استعمال کی گئی ہیں۔ بھارت اپنے شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کے معاملے میں 74 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رہنماوں کی نااہلی و کمزور نظر کی وجہ سے ویکسین کا بحران جولائی کے آخر تک بھارت میں جاری رہے گا۔ دریں اثنا، لوگ آکسیجن کی کمی اور جان بچانے والی دوائیوں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت کے قائدین کی نااہلی اور لاپرواہی کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ بیرونی ممالک کی جانب سے(  300 ٹن ایمرجنسی طبی سامان)کی امداد دہلی ائیرپورٹ ہی میں پڑی رہ جاتی ہے، اور ادھر لوگ مررہے ہیں۔ محکمہ کسٹم اسے کلیئرنس دینے سے قاصر ہے۔ بھارتی رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا بھارت ملک کے شہری ایسی پالیسیاں برداشت کرسکیں گے؟ اور ایسے نا اہل لیڈروں کو معاف کرپائیں گے جنہوں نے ان کے رشتہ داروں کو اپنی نااہلی کے سبب موت کے گھاٹ اتار دیا