اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیوروکریٹس کی جبری ریٹائرمنٹ کی اجازت دیدی

سول سرونٹ ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فراہم سروس رولز 2020 قانون کے مطابق ہیں،تحریری فیصلہ

اسلام آباد (صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سول سرونٹ ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ رولز 2020 کے خلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے سینئر بیوروکریٹس کی جبری ریٹائرمنٹ کی اجازت دے دی ہے۔ بدھ کوعدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ مختلف بیوروکریٹس نے سول سرونٹ قوانین کو چیلنج کر رکھا تھا۔تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ سول سرونٹ ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فراہم سروس رولز 2020 قانون کے مطابق ہیں۔ مجاز اتھارٹی نے رولز طے کردہ پیرامیٹر کے مطابق درست انداز میں بنائے ہیں۔فیصلے میں کہا گیاعدالت یہ سمجھتی ہے کہ وفاقی حکومت پروموشن اور ریٹائرمنٹ کو سب سے بہتر انداز میں جانچ سکتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کی حکومت نے سول سرونٹس رولز 2020 متعارف کرائے تھے۔ ان قوانین کو کچھ سینیئر بیوروکریٹس نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ 20 سال مکمل کرنے کے بعد پینشن کی عمر تک پہنچنے کیلئے خدمات انجام دیناسول سرونٹ کا حق نہیں۔ یہ مجوزہ اتھارٹی یا حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے۔ تاہم اس اختیار کا استعمال سول سرونٹس رولز 2020 کے رول 5 میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ان قوانین کے ذریعے ریٹائرمنٹ بورڈ / کمیٹی کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ وقت سے قبل ان افسران کو ریٹائر کر سکتے ہیں جن کی کارکردگی اوسط درجے کی ہویا ان کی کارکردگی کے متعلق منفی رائے ہو۔ سینٹرل سلیکشن بورڈ، ڈیپارٹمنٹل سلیکشن بورڈ یا ڈیپارٹمنٹل پروموشنل بورڈ کی طرف سے دو بار تنزلی کی سفارش یا اعلی اختیاراتی سلیکشن بورڈ کی جانب سے دو بار ترقی کی سفارش نہ کی گئی ہو۔