گوادر، مکران میں بجلی بحرا ن اور کرونا نے تباہی مچا دی ہے ‘ نوید جان بلوچ

گوادر میں بجلی نہ ہونے کے باعث صنعتیں بند اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں’ انجم نثار

افسوس ہے کہ آج کے دور میں بھی پانی و بجلی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں’ قربان علی ، مرزا عبدالرحمن

چینی اور جرمن کمپنیوں سے بھی معاہدے ہوئے مگر ان پر بھی کام شروع نہیں کیا گیا’ سینیٹر اسماعیل بلیدی

بیروزگاری میں اضافہ کے باعث جرائم میں اضافہ کا بھی خدشہ ہے’ سینیٹر نصیب اللہ بازئی

اسلام آباد(ویب نیوز  ) چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ( سی پیک) کے مین منصوبہ گوادر اور مکران میں بجلی بحران اور کرونا وباء نے تباہی مچا دی ہے ۔ بجلی نہ ہونے کے باعث صنعتیں بند ہو گئیں جس کے باعث لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان ملک کی ترقی چاہتے ہیں مگر افسر شاہی اس ترقی اور مسائل کے خاتمہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ چین اور جرمن کمپنیوں کیساتھ سستی بجلی کے معاہدے ہونے کے باوجود ان اہم منصوبوں پر کام شروع نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ یہ بات ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر اور گوادر چیمبر کے صدر نوید جان بلوچ نے ایف پی سی سی سی آئی کے سابق صدر میاں انجم نثار، چیئرمین کیپٹل آفس قربان علی ، کوآرڈینیٹر مرزا عبدالرحمن اور سینیٹر ڈاکٹر محمد اسماعیل بلیدی ، سینیٹر نصیب اللہ بازئی کے ہمراہ ایف پی سی سی آئی کے کیپٹل آفس اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔ نوید جان بلوچ ‘میاں انجم نثار، ‘قربان علی ، مرزا عبدالرحمن ‘سینیٹر ڈاکٹر محمد اسماعیل بلیدی اور سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے ۔ گوادر ایک اہم منصوبہ ہے مگر کچھ مسائل ہیں جنہیں حل کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ حکومت پاکستان ایران سے بجلی خرید کر گوادر کو دیتی ہے جو نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں جو اب ایران نے منقطع کردی ۔ گوادر میں بجلی نہ ہونے سے فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں سب سے زیادہ فشریز اور برف کی فیکٹریاں متاثر ہوئی ہیں ۔ فیکٹروں میں کام کرنے والے ملازمین اور ماہی گیربھی بڑے پیمانے پر بیروزگار ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی نہ ہونے سے پانی کا مسئلہ بھی سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایران سے بجلی کے حوالے سے معاہدہ بھی کیا ایران نے تین ماہ میں پاکستانی سرحد تک بجلی کی لائن بچھا دی مگر پاکستان کی جانب سے تاحال کام شروع نہ کیا جا سکا ۔ اسی طرح چینی اور جرمن کمپنیوں سے بھی معاہدے ہوئے مگر ان پر بھی کام شروع نہیں کیا گیا جو ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ انہوں نے کہا حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں پانی و بجلی سمیت دیگر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے ورنہ گوادر کے بغیر سی پیک منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ گوادر ایک عالمی منصوبہ ہے اور مستقبل میں یہ عالمی شہر بننے جا رہا ہے ۔ ایسے اہم علاقے پر حکومت کو خصوصی توجہ دینا چاہیے ۔ گوادر جیسے اہم علاقے کو بجلی سے محروم رکھنا پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ نیشنل گرڈ سے اگر مسائل ہیں تو ایران سے آنے والی بجلی کی سپلائی کیلئے حکومت کو جلد اقدامات اٹھانا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان ، ایرانی سفیر سے ملاقات کرکے اس مسئلہ کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں گے ۔ نوید جان بلوچ ‘میاں انجم نثار، ‘قربان علی ، مرزا عبدالرحمن ‘سینیٹر ڈاکٹر محمد اسماعیل بلیدی اور سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے مزید کہاکہ ایک طرف بجلی تو دوسری طرف کرونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے ۔ بیروزگاری میں اضافہ کے باعث جرائم میں اضافہ کا بھی خدشہ ہے اس لئے حکومت کو اس بارے میں سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی اصلاحات لانا ہونگی ۔ انہوں نے کہاکہ افسوس ہے کہ آج کے دور میں بھی پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پانی و بجلی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ فنگشنل ہو چکا ہے مگر سہولیات نہ ہونے کے باعث بیرون ممالک کے سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے علاقوں کو اولین ترجیحات میں رکھنا چاہیے جہاں سے ملکی معیشت کو فائدہ اور زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔ گوادر سی پیک کا اہم ترین منصوبہ ہے ۔ اسے ملک کے بڑے شہروں خاص کر سنٹرل پنجاب سے منسلک کیا جائے تاکہ سی پیک اور گوادر پورٹ کامیاب ہو اور کراچی پورٹ پر بوجھ کم ہو سکے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ گوادر میں بجلی کے مسائل کو جلد از جلد حل کرے تاکہ وہاں بند ہونے والی صنعتیں بحال ہوں اور بیروزگاری کے خاتمہ کیساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بہتری اور زرمبادلہ میں اضافہ کاباعث بن سکے ۔