طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا، ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے،ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی
نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے ، نئے تناظر کو دیکھا جائے
ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا
افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے،وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کی اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانستان کی صورتحال پر وزارتِ خارجہ میں علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ،کانفرنس کی میزبانی پاکستان نے کی ،ورچوئل کانفرنس میں چین ، ترکمانستان ، تاجکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزارتِ خارجہ میں منعقدہ  علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سب کو افغانستان کے ہمسایوں کے پہلے وزارتی اجلاس میں شرکت پر خوش آمدید کہتا ہوں۔میں دل کی گہرائیوں سے آپ کی تحسین کرتا ہوں کہ آپ سب نے افغانستان میں درپیش صورتحال پر علاقائی انداز فکر اختیار کرنے کی ہماری تجویز پر اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔میں نمائندگان وخصوصی نمائندگان کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں جن کی بھرپور محنت سے آج کے اجلاس کے لئے مضبوط بنیاد فراہم ہوئی۔میں پرامید ہوں کہ آج کا ہمارا غوروخوض بارآور ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کی تاریخ کے ایک کلیدی و اہم مرحلے پر اس اجلاس میں شریک ہیں۔گذشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور عمومی طورپر دنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں۔یہ واضح ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوسکا کہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے جس میں سکیورٹی فورسز کا یوں ریت کی دیوار ثابت ہونا اور افغانستان کی حکومت کا ختم ہونا شامل ہے۔قبل ازیں ہونے والے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔غیرمتوقع اور اچانک وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات سے قطع نظر اہمیت اس امر کی ہے کہ دہائیوں سے جاری خون خرابہ دوہرایا نہیں گیا۔طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے۔بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوالیکن اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے۔تاہم ایک بات یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں تبدیل شدہ حقیقت کے ساتھ تگ ودو میں مصروف عمل ہے۔طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے۔ ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے۔ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے ، نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکر اپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ہماری کوششوں کا بنیادی محور ومرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہیے جو چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط تنازعے اور عدم استحکام سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 18 اگست 2021 کو میں نے چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وینگ ای سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔افغانستان میں رونما واقعات کے تمام چھ ہمسایہ ممالک کے لئے واضح مضمرات کے تناظر میں ہم نے قریبی رابطوں اور اشتراک پر اتفاق کیاتھا۔24 تا 26 اگست 2021 کو میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کا دورہ کیا۔میں شکر گزار ہوں کہ ہم نے اس دورے کے دوران، تفصیلی اور بڑی نتیجہ خیز گفتگو کی۔ہم نے آگے بڑھنے کے ایسے طریقہ کار کی تیاری پر اتفاق کیا جس سے مشترکہ مسائل کے حل اور ان امکانات کو عملی شکل دینے میں مدد ملے  ۔انہوں نے کہا کہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لائے۔ہماری دانست میں کئی کلیدی نکات اور ترجیحات ہیں جو اس سمت میں ہماری کوششوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے، ہمیں ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا، ہمیں زور دینا ہوگا کہ افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہیے، ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔حالیہ پیش رفت کے تناظر میں کلیدی ترجیحات یہ شامل ہیں کہ انسانی نوعیت کا بحران جنم نہ لے جس سے افغانوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں۔اسی قدر یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں،اگر انسانی نوعیت کے بحران کو جنم لینے سے روکا جائے اور معاشی استحکام کو یقینی بنالیا جائے تو امن کی بنیاد مستحکم ہوسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مہاجرین کی یلغار سے بچا جاسکتا ہے۔نہایت ناگزیر پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے۔سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا۔اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی۔مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکمل انحطاط سے بچانے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں کلیدی ہوگی۔مجھے شک نہیں کہ ہمارے آج کے غوروخوض سے افغانستان میں صورتحال کے بے شمار پہلوئوں پر ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ہماری تجویز ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے۔میری یہ بھی تجویز ہوگی کہ مستقبل میں افغانستان کو اس میں مدعو کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے۔افغانستان کی اس میں شمولیت سے فورم کے موثر ہونے اور افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے ہمارے مشترکہ مقاصد پر پیش رفت کو تقویت ملے گی۔افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے۔عالمی برادری کے لئے ہماری مشترکہ آواز پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے پیغام کو تقویت دے گی جو نہ صرف داخلی طورپر پرامن ہو بلکہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی امن وآشتی کا حامل ہو۔میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔