طالبان آزاد خیال لوگ ،اپنے فیصلے خود کرتے ہیں،شاہ محمود قریشی

 طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہم مناسب وقت پر فیصلہ کریں گے

ہمارے مقاصد کیا ہیں، ہمارے مقاصد میں امن اور استحکام کا قیام ہے اور ہم امن اور استحکام کے قیام کے  لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کریں گے

طالبان کے حوالے سے جو تشویش15اگست کو تھی اب اس میں بڑی حدتک کمی آچکی ہے،

مجھے توقع ہے کہ بھارت ، افغانستان میں معاملات کو خراب کرنے والے ملک کا کردار ادا کرنا بند کرد ے گا۔

ہم  ان کے اندورنی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے،غیرملکی  ٹی وی کو انٹرویو

نیو یارک(ویب  نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود   قریشی نے کہا ہے کہ طالبان آزاد خیال لوگ ہیں اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور ہم نے بطور پالیسی  فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور ہم اسی وقت مدد کریں گے جب ہمیں مدد کے لئے کہا جائے گا اور ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کی مدد کریں گے اور ہمارے مقاصد کیا ہیں، ہمارے مقاصد میں امن اور استحکام کا قیام ہے اور ہم امن اور استحکام کے قیام کے  لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کریں گے،ہم ان کے اندورنی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔طالبان نے واضح عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے بھی خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس میں پاکستان بھی شامل ہے اور مجھے توقع ہے کہ طالبان اپنے اس وعدے پر پورا  اتریں گے۔ پاکستان ، افغانستان کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہم مناسب وقت پر فیصلہ کریں گے۔

ان خیالات کااظہار شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقع پر، نیویارک میں الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کے حوالے سے جو تشویش15اگست کو تھی اب اس میں بڑی حدتک کمی آچکی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعد کوئی خونریزی نہیں ہوئی، سول وار کے امکانات ختم ہو گئے ہیں، طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان اور کسی سے کوئی انتقام نہ لینے کے عزم کے اعلان کے بعد ملک میں امن آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کے لوگوں میں کوئی بے چینی نہیں تاہم غیر یقینی کی صورتحال برقراررہے گی اور اگر کچھ چیلنجز کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو پھر صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ 9/11کے بعد امریکہ کے پاس اپنی عوام کی رائے کی روشنی میں افغانستان پر حملہ کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔امریکہ کا افغانستان پر حملے کا فوری مقصد القاعدہ کا خاتمہ تھا،اور ان کو لوگوں کو سزادینا تھا جو 9/11کے واقعہ کے ذمہ دار تھے، جب امریکہ نے یہ کام کر لیا تھا تو پھر میرے خیال میں امریکہ کو مفاہمت، امن  اور تعمیر نوکے لیے کا م کرنا چاہئے تھا تاکہ جو تباہی ہوئی تھی اس کی جگہ نئی تعمیر نو کے بعد ملک معمول کی زندگی کی طرف واپس جاتا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں جو رقم خرچ کی گئی اس کا بڑا حصہ سکیورٹی کے اوپر خرچ کیا گیا اور تعمیروترقی پر کم خرچ کیا گیا۔

ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح کسی اور کی زبان بولتے ہیں اور ان کو بھارت کی طرف سے بریفنگ دی جاتی ہے اور وہ بھارت کے پے رول پر تھے۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک جو لوگ افغانستان کی جیلوںمیں تھے ان کے جیلوں سے فرارپر ہمیں تشویش ہے۔ افغانستان کو معاشی طور پر مدد کی ضرورت ہے اور اگر افغانستان کے 10ارب ڈالرز کے فریز شدہ اثاثے واپس فراہم کردیئے جاتے ہیں تو یہ بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں، یہ رقم ان فریز کی جائے اور یہ رقم افغان لوگوں کو دستیا ب ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی بحران پیدا ہونے جارہا ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے لئے یہ رقم استعمال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم کے درست استعمال کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے کہ یہ رقم ضرورت مندوں پر خرچ ہو اور اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کردار ادا کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان دوسرے نسلی گروہوں کے افراد کو حکومت میں شامل کرنے کے معاملہ سے ناواقف نہیں تاہم  اتفاق رائے پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے، طالبان نے جو عبوری  حکومت قائم کیا ہے اس میں سب پشتونوں کو شامل کیا گیا تاہم بعد میں طالبان نے دیگر نسلی گروہوں کے افراد کو بھی حکومت میں شامل کیاہے،طالبان نے تاجک، ازبک اور ہزارہ گروہوں کو حکومت میں شامل کر کے تمام گروہوں کی شمولیت کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت کے خیال کو تسلیم کر لیا اور یہ آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان کے ساتھ بارڈ ر مشترک ہے اور ہمارے کچھ خدشات ہیں، پاکستان کے ذریعہ افغانستان کو تجارت ہوتی ہے، القاعدہ کے مضبوط ہوتے ہوئے قدم اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ہمارے لئے تشویش کا باعث ہیں  اور جنرل فیض حمید ان خدشات کو دور کرنے کابل گئے تھے۔ سیاست میں آپ کو کمپرومائزز کرنا پڑتے ہیں اور دونوں طرف کے خیالات رکھنے والے افراد کو اکاموڈیٹ کرنا پڑتا  ہے۔ طالبان نے بچیوں کو سکول جانے کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بارڈر کھلے ہوئے ہیں تاہم پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر کسی کو پاکستان نہیں آنے دیا جاسکتا۔ طالبان رہنما ملا ترابی کے اس بیان کے بارے میں مجھے علم نہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ طالبان دوبارہ سرعام پھانسیاں دیں گے اور جرائم پر سزادیں گے، ہم ایسا افغانستان بالکل بھی ہمسائے کے طور پر  نہیں دیکھنا چاہتے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ بھارت ، افغانستان میں معاملات کو خراب کرنے والے ملک کا کردار ادا کرنا بند کرد ے گا۔ ماضی میں بھارت، افغانستان میں معاملات کو خراب کرنے والے ملک کا کردار اداکرتا رہا ہے اور اس نے امن عمل میں کوئی مدد نہیں کی بلکہ اس نے امن عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں انتخابات کروانے سے پہلے ابھی عبوری حکومت قائم کی ہے، چیزوں کو سیٹل ڈائون ہونے دیں ، معالات کو ٹھنڈا ہونے دیں اور لوگوں کو خود کو محفوظ خیال کرنے دیں اس کے بعد ہم نمائندگی کے بارے میں بات کریں گے۔ ZS